عام طور پر ہمارے معاشرے کا یہ خاصا رہا ہے کہ اس نے مثبت کے ساتھ منفی خیالات کو بھی قبول کیا ہے۔ جہاں اس میں اچھائی کا غلبہ رہا ہے وہیں بُرائی اور غلط رجحانات بھی اپنی جگہ بناتے رہے ہیں ۔ اسی منفی رجحان کے تحت اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ ساس ماں نہیں ہوتی اور بہو کبھی بیٹی نہیں بن سکتی جبکہ یہ سچائی نہیں ہے۔جس طرح سے مائیں اپنی بیٹیوں سے پیار کرتی ہیں ۔ اُسی طرح ساسیں بھی بہوؤں سے پیار کرتی ہیں ۔ اِس کے پیچھے اپنے بیٹوں کی خوشی اور اُن کا گھر آباد کرنے کا وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اُنہیں بیاہ لاتی ہیں ۔ دوسری طرف بہوئیں بھی ساسوں کو ماں سمجھتی ہیں کیونکہ اُن کی تربیت اسی نہج پر ہوتی ہے۔ والدین اپنی لڑکیوں کی تربیت اِس انداز میں کرتے ہیں کہ وہ پرائے گھر کو اپنا گھر سمجھیں اور اس کے مکینوں کو پیار محبت سے اپنا بنالیں ۔ ایسے میں ساس کو ماں سمجھنا والدین کی اولین تعلیمات میں شامل ہوتا ہے۔ مغالطہ تب شروع ہوتا ہے جب ساس کچھ کہے اور بہو کچھ کا کچھ سمجھے۔
اکثر لڑکیوں کو سسرال سے ڈرایا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ماں کے گھر تو کسی طرح گزارا ہو ہی گیا۔ سسرال جاؤگی تب پتہ چلے گا۔ یہ اور اِس طرح کی باتیں نو خیز لڑکیوں کو شادی اور سسرال سے خائف کرتی ہیں ۔ حد تو اُس وقت ہوتی ہے جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ سسرال لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے کیونکہ ساس ماں نہیں ہوتی جو تمہاری غلطیوں پر پردہ ڈالے گی۔ یہ وہ ضربیں ہوتی ہیں جو اُن کے معصوم اذہان کو چوٹ پہنچاتی ہیں اور پھر رہی سہی کسر ساس کے منفی کردار کی تصویر کشی کرکے پوری کر دی جاتی ہے۔
سسرال لڑکیوں کے لئے نئی جگہ ہوتی ہے۔ ہر گھر کے طور طریقے ریت رواج الگ ہوتے ہیں ۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ لڑکی کا سسرال اُس کے میکے کی طرح ہو۔ پھر بھی بہوئیں اپنے حسن ظن سے اپنی سی کوشش کرکے سب کا دِل جیتنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں نئے گھر نئے ماحول میں ڈھلنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ آنے والی لڑکی کو موقع دیا جائے کہ وہ سسرالی ماحول میں رچ بس جائے۔ لیکن بے صبر ذہنیت کے حامل افراد ہر فاصلے جلد بازی میں طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اِس میں سب سے پہلا کردار ساس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
آج کی بہو کل کی ساس ہوتی ہے۔ آج نہیں تو کل وہی گھر کی مالک ہوتی ہےاور یہی معاشرتی نظام اُنہیں بھی سنبھالنا ہوگا۔ اسی نظریے کے تحت ساسیں بہوؤں کی ذرا سی غفلت و کوتاہی برداشت نہیں کرتیں اور وہی طریقہ اپناتی ہیں جو طریقہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ روا رکھتی آئی ہیں ۔ وہ بھول جاتی ہیں کہ سامنے بہو ہے۔ جبکہ یہ باتیں بہوؤں کی سمجھ میں نہیں آتیں اور وہ ناراض ہو جاتی ہیں ۔ چونکہ ساس، بہو اور بیٹی میں کوئی تمیز نہیں کرتی اس لئے برملہ اپنی خفگی کا اظہار کرتی ہے جبکہ بہو یہی بات سمجھ نہیں پاتی اور برا مان جاتی ہے۔
ایسے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا سی لغزش ساس اور بہو کے درمیان غلط فہمی پیدا کرسکتی ہے۔ زبان میں اگر مٹھاس ہو تو کڑوی بات بھی میٹھی لگتی ہے۔ غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ اگر ساس یہ بات سمجھ لے تو معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے۔ سسرال میں لڑکی سے اگر خطا ہو جائے تو اول تو اسے اپنی غلطی مان لینی چاہئے۔ دوسرے اگر ساس کچھ کہے تو اُسے اِس انداز سے لیں گویا اُس کی اپنی ماں کہہ رہی ہیں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ اِس وقت اُس کی اپنی امّی ہوتیں تو اُن کا طریقہ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا۔ اِدھر ساس کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اِس قسم کی غلطی اُس کی اپنی بیٹی سے سرزد ہوئی ہوتی تو وہ کیا کرتیں ؟ آج کل بیٹیاں بھی روکھا پھیکا مزاج برداشت نہیں کرتیں ۔ اسی طرح سے متبادل میں اپنوں کو رکھ کر سوچیں تو ساس کا اندازِ تخاطب کچھ اور ہوگا اور بہو کا نظریہ بھی یکسر جدا ہو گا۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔