دین اسلام میں نکاح اور رشتہ ازدواج ایسا رشتہ ہے جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں اور نکاح کو نصف ایمان کا درجہ قرار دیا گیا ہے۔ نکاح کے بغیرمسلمان کا ایمان نامکمل ہے ۔ایک جگہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: جو بغیر کسی وجہ کے شادی نہ کرے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ میرا طریقہ تو نکاح ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کی طبیعتوں میں ایک دوسرے کیلئے کشش رکھی ہے اور اسی فطری تقاضے کو شادی کے ذریعے جائز قرار دیا ہے اور اس میں بلاوجہ تاخیر‘ اور کوتاہی‘ بے راہ روی‘ گمراہی اور گناہ کو دعوت دینا ہے ۔زیادہ لوازمات نے شادی کو مشکل سے مشکل تر بنادیا ہے‘ بے شمار رسومات کی پابندی‘ ذات برادری کو ترجیح دینا‘ اپنے سے اونچے گھرانے کی تمنا کرنا‘ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔ اگر لڑکے کی شادی کرنی ہے تو بھئی کافی جہیز آئے گا‘ گویا شادی کو کاروبار کا درجہ دے دیا گیا ہے اور بیٹی کیلئے اچھے گھرانے میں شادی کرنے کیلئے جہیز جمع کرتے کرتے اس کے بالوں میں سفیدی آجاتی ہے اور وہ شادی کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہے جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ: جب لڑکی جوان ہوجائے اور مناسب رشتہ آجائے تو نکاح میں جلدی کرو‘‘۔
نکاح کو آسان بنائیں
برادری سے باہر رشتہ کرنے میں عار یا شرم محسوس کرنا یا قباحت محسوس کرنا صحیح نہیں۔ بس برادری کو خوش کرنے کے چکر میں اولاد کی زندگی خراب نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں نوجوان اولاد ایسے ہی بے نکاحی اور غیر فطری زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کے بال تو سفید ہوگئے مگر برادری سے باہر ان کے والدین نے رشتہ نہیں کیا‘ کیا یہ اولاد کے ساتھ خیر خواہی ہے؟ بلکہ ہمارے اسلامی معاشرے میں تو یہاں تک حکم ہے کہ بیوہ گان کا بھی نکاح کردو‘ کیونکہ بہت سی سعادتیں نکاح ہونے سے حاصل ہوجاتی ہیں مثلاً ایک بیوہ خاتون محرم نہ ہونے کی وجہ سے حج جیسی سعادت سے محروم تھی جب اس کا نکاح ہوا تو حرمین شریفین کی زیارت کو چلی گئی۔
کم خرچ والا نکاح
نکاح کی فضیلت‘ اہمیت‘ افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس لئے یہ فضیلت جلد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حدیث شریف کے مطابق سب سے کم خرچ والا نکاح سب سے زیادہ برکت والا ہوتا ہے۔ گنجائش اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا بے جا رسومات اور خرافات کو اہمیت دینا غلط ہے ان سے بچ کر نکاح کرنا باعث برکت ہے۔ شریعت نے نکاح میں اتنی آسانیاں دی ہیں کہ آج کا معاشرہ اس کا تصور ہی نہیں کرسکتا ہم نے شریعت کی دی ہوئی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے رسم و رواج کی پابندی‘ ذات برادری‘ جہیز جیسی لعنتیں شامل کرکے اپنے لئے مشکلات کھڑی کرلی ہیں۔ ورنہ تو شریعت کے مطابق بس دو گواہ ہوں ایجاب و قبول ہو اور لڑکے کی وسعت کے مطابق مہر مقرر کردیاجائے بس نکاح ہوگیا۔ مصنوعی تکلفات میں پڑ کر اس اہم اور نیک کام میں تاخیر کرنا بے راہ روی کا سبب بن سکتا ہے۔
رزق میں برکت
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر فقر (غربت) کی شکایت کی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: شادی کرلو۔ خود قرآن میں ہے: ترجمہ اگر فقر ہے تو شادی کسی برکت سے اللہ تعالیٰ غنا نصیب فرمادے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مال و جہیز خوب ملے گا بلکہ ذمہ داری کا احساس ہوجاتا ہے‘ آدمی کچھ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ برکت دے دیتے ہیں۔ رزق کیلئے پریشان نہیں ہونا چاہئے انسان اپنے مقدر کا کھاتا ہے۔
نکاح کی سعادتیں
نکاح کے ذریعے بعض سعادتیں بھی حاصل ہوتی ہیں‘ نکاح کے ذریعے مرد و عورت باوقار بنتے ہیں۔ والدین کا ایک اہم فریضہ ادا ہوجاتا ہے فطری تقاضے فطری طریقے پر پورے ہوتے ہیں اور بدنگاہی سے بچنے کا بہترین علاج ہوجاتا ہے ایمان کی سلامتی اور بچائو کا بڑا ہی اہم ذریعہ ہے‘ امت محمدیہﷺ میں بڑھوتری کی سعادت نصیب ہوتی ہے‘ نیک اولاد صدقہ جاریہ بنتی ہے یہ تمام سعادتیں صرف نکاح جیسی عظیم نعمت کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں بغیر اس سنت کی ادائیگی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں نکاح سے متعلق بے اعتدالیوں اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور یہ اقدام معاشرتی طور پر اٹھایا جائے۔ مثلاً بے نکاح مرد و عورت اور ان کے والدین غیر شرعی مطالبات اور رسومات کو ترک کرکے نکاح کو نہایت آسان بنائیں تاکہ نکاح میں تاخیر کی وجہ سے جومسائل پیدا ہو رہے ہیں ان کو ختم کیا جاسکے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔