ہر سال پندرہ مئی کو خاندان کا دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد گھریلو زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کی اہمیت کے پیش نظر ہمیں ان چند سنہری اصولوں کی تجدید کرنی چاہیے جنھیں ہم بھول چکے ہیں۔
وقت کی مناسب تقسیم
وقت کی مناسب تقسیم، بہتر منصوبہ بندی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ گھر زیادہ توجہ کا مرکز ہونا چاہیے گھریلو اور ملازمت میں توازن برقرار نہ رکھنے کی صورت میں، گھریلو زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
دفتر کا کام گھر پر نہ لائیں
اکثر لوگ آفس کے مسائل کو گھروں میں لے کر آتے ہیں اور گھروں کی الجھنوں کو آفس میں،اس طرح افراد ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہیں گزار پاتے۔ رشتے محبت، قبولیت، ربط باہمی اور احترام کے احساس تلے پھلتے پھولتے ہیں۔ سماجی ماہرین کیمطابق، ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے سمجھوتے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
فیملی کے ساتھ وقت گزاریں
تفریحی مقامات پر جانا زندگی کی یکسانیت کو توڑ دیتا ہے۔ایسے تعمیری لمحے، خاندان کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب لے کر آتے ہیں۔گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گاہے بہ گاہے فیملی کے ساتھ تفریحی مقامات پر وقت گزارا جائے۔
والدین کا کردار
بچے والد سے خود اعتمادی، ماحولیاتی سمجھ اور عملی سوچ سیکھتے ہیں، جو ماں نہیں دے سکتی۔ ماں محبت و شفقت تو دے سکتی ہے، مگر باپ کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جدید تحقیق کے مطابق ماؤں تک محدود بچے زود رنج، حساس، غیرعملی اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔اگر بچے برا کریں تو ماں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ فقط وہ ماں بچے کی اچھی تربیت کر سکتی ہے، جو خاندان کے مثبت رویوں کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جس کی سوچ مختلف ذمے داریوں میں بٹی ہوئی نہ ہو۔ اگر مائیں کام کرنے کی مشینیں بنا دی جائیں تو ان کے لیے کسی طور ممکن نہیں کہ وہ بچوں کی بہتر ذہنی تربیت کر سکیں۔ ماں اگر گھٹن اور حبس کا شکار ہے تو وہ کیفیت موروثی طور پر بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔محض ڈگری یافتہ معاشروں میں، عورت کی جذباتی کمزوریوں پر لطیفے بنائے جاتے ہیں۔ ان کی خامیوں پر ہنسا جاتا ہے۔ جس گھر میں بھی ماں کا استحصال ہوتا ہے، اس گھر سے خوشی اور خوشحالی روٹھ جاتی ہے۔
وہ گھر بہت کامیاب رہتے ہیں، جن میں مسائل کا عقلی اور حقیقت پسندانہ انداز سے جائزہ لے کر انھیں حل کیا جاتا ہے۔ایشیا کے بہت سے ملکوں میں سرشام کاروبار بند ہو جاتا ہے، تاکہ گھر میں خاندان کے ساتھ مل کر ایک اچھا وقت گزارا جا سکے۔ بچوں کو قیمتی اشیا سے زیادہ، والدین کا جذباتی سہارا درکار ہوتا ہے۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔