شادی ایک مقدس بندھن ہے جو دو افراد کو زندگی بھر کے رشتے میں باندھتا ہے۔ تاہم، بعض صورتوں میں یہ موت، طلاق، یا دیگر حالات کی وجہ سے تحلیل ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں دوبارہ شادی کا خیال آتا ہے۔ جب کہ دوبارہ شادی سماجی طور پر قابل قبول ہو چکی ہے، دوسری شادی کے لیے بھی ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ بہت سے معاشروں میں، دوسری شادی کو سماجی طور پر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اسے اکثر پہلے شریک حیات کے ساتھ غداری یا بے وفائی کے فعل کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ دوسری شادی سے جڑی سماجی بدنامی اتنی مضبوط ہے کہ یہ اس فرد کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے جو دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جس کے منفی نتائج نکل سکتے ہیں جیسے کہ اخراج، سماجی تنہائی، اور جذباتی پریشانی۔ دوسری جانب معاشرہ اکثر شادی کی ناکامی کا ذمہ دار خواتین کو ٹھہراتا ہے، جس سے ان کے لیے دوبارہ شادی کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی شادی ختم ہونے کے بعد بھی اپنے پہلے شوہر کے ساتھ وفادار رہیں، جس سے ان کے لیے آگے بڑھنا اور نئی زندگی شروع کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسلام مردوں کو چار بیویوں تک شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ تاہم، یہ لازمی نہیں ہے، اور مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کر سکتا تو اسے صرف ایک ہی شادی کرنی چاہیے۔ مزید برآں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو بیواؤں اور طلاق یافتہ عورتوں سے شادی کرنے کی ترغیب دی تاکہ ان کی کفالت اور انہیں محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ)تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔النساء۔
دوخواتین کے حقوق برابری کے ساتھ ادا کرنا عموماً آسان نہیں اور کسی ایک کے ساتھ ترجیحی سلوک کا وبال بڑا سخت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ)”جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔”(احمد بن حنبل، المسند، 2: 347)اور ایک روایت میں ہے کہ:’اسے اس حال میں گھسیٹا جائیگا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا یا گرا ہوا ہوگا۔'(احمد بن حنبل، المسند، 2: 295)
بہرحال دوسری شادی کیلئے قرآن کریم میں عدل و انصاف کی شرط ہے، اگر عدل نہ کرسکے یا جسمانی و مالی لحاظ سے حقوق زوجیت ادا نہ کر سکے تو ایک سے زائد کی اجازت نہیں، اور اگر ایک بیوی کی بھی مالی و جسمانی لحاظ سے توفیق نہیں تو ایک کی بھی اجازت نہیں۔ اگر آپ مالی اور جسمانی صحت کے لحاظ سے دوسری شادی کی استطاعت رکھتے ہیں تو اپنے علاقہ کی یونین کونسل سے موجود عائلی قوانین (مسلم فیملی لاء) کے تحت پہلی بیوی سے اجازت لے لیں تاکہ شرعی و قانونی تقاضے پورے ہو جائیں۔
موجودہ قوانین کے مطابق اگر کوئی مرد پہلی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شادی کرے تو پہلی بیوی کی شکایت پر اسے سزا یا جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قانون کے مطابق دوسری شادی کرنے کے لیے تحریری اجازت نامے کے لیے یونین کونسل کے چیئرمین کو درخواست دینی ہوتی ہے جس میں دوسری مجوزہ شادی کی وجوہات اور پہلی بیوی سے اجازت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ یونین کونسل چیئرمین یہ درخواست موصول ہونے پر شوہر اور بیوی سے اپنی اپنی جانب سے ایک، ایک رکن نامزد کرنے کے لیے کہتے ہیں جس کے نتیجے میں چیئرمین کی سربراہی میں ‘ثالثی کمیٹی’ تشکیل پاتی ہے۔ یہ ثالثی کمیٹی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔قانون کے مطابق کچھ مواقع پر اگر ثالثی کمیٹی کی اجازت کے بغیر شادی کی جائے تو ایسا کرنے کی صورت میں مرد کو سزا ہو سکتی ہے یا اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ یہ سزا ایک برس تک قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔اس کے علاوہ دوسری شادی کرنے والے مرد کو پہلی بیوی کو فوری طور پر مہر کی تمام رقم ادا کرنی ہو گی جبکہ دوسری شادی کے بارے میں سماجی رویے اکثر منفی ہی ہوتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔