مشرقی معاشروں میں عورت کا کام صرف سجنا سنورنا، بچے پیدا کرنا اور گھر کے کام کاج تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ اسے زندگی کے سنجیدہ سماجی، معاشی اور معاشرتی معاملات کو حل کرنے کا اہل نہیں سمجھا جاتا ہے۔پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی زندگی اس وقت مکمل بدل جاتی ہے جب وہ والدین کے گھر سے رخصت ہو کر سسرال پہنچتی ہیں۔ یہاں ان کے لیے ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے، جہاں انہیں دوسروں کی مرضی سے جینا ہوتا ہے اور ان کی اپنی زندگی بالکل ختم ہو جاتی ہے۔اب جبکہ خواتین کا عالمی دن آنے والا ہے اور اس دن خواتین کے مسائل پر بھرپور طریقے سے بات بھی ہو گی تو ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بات تو بہت ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ مسائل کب ختم ہوں گے؟
خواتین کے لیے ملازمت کے مسائل
پاکستان جیسے ملک میں غربت، تنگ دستی اور مہنگائی کے باعث عورت جب روزگار کے لیے باہر نکلتی ہے تو اسے بے شمار پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت حاصل کرنا ہی ایک مشکل کام ہے، اور اگر نوکری مل بھی جائے تو وہاں بھی مردوں کی بالادستی کے باعث صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کے گھر سے نکل کر کام کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے، لیکن اگر وہ صرف گھریلو کام کاج تک محدود رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
گھریلو مسائل اور معاشرتی بگاڑ
پاکستان میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے گھرانے بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں گھریلو ماحول میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ سماجی رشتے تیزی سے کمزور ہو رہے ہیں، طلاق اور خودکشی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
زیادتی کے کیسز میں اضافہ
خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اجتماعی زیادتی جیسے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ معصوم بچیاں بھی اس درندگی سے محفوظ نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں روزانہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 9 کیسز رپورٹ ہوتے تھے، جبکہ اب یہ تعداد 12 تک پہنچ چکی ہے۔
انصاف کا فقدان
ہمارے معاشرے میں اگر کسی عورت پر تشدد کیا جاتا ہے تو زیادہ تر خواتین ظلم سہنے پر مجبور ہوتی ہیں یا پھر خودکشی کر لیتی ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، جہاں انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ آج بھی ایک مظلوم عورت کے لیے تھانے میں جا کر اپنی شکایت درج کروانا انتہائی مشکل ہے۔ اگر کسی کیس کی رپورٹ درج بھی ہو جائے تو تفتیش کا عمل خود ایک اذیت سے کم نہیں ہوتا۔
جاہلانہ رسومات اور سماجی برائیاں
اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں کاروکاری، وٹہ سٹہ اور ونی جیسی جاہلانہ رسومات عام ہیں۔ عورتوں کو راہ چلتے ہراساں کرنا، ان پر آوازیں کسنا، سوشل میڈیا پر تضحیک کرنا، بلیک میل کرنا اور غیر مہذب زبان استعمال کرنا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اگر کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو بعض اوقات بھائی ہی اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے، بجائے اس کے کہ مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف مذمتی بیانات، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ معاشرے کو خواتین کے حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان پر ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا تاکہ نہ صرف نظامِ عدل کو مضبوط بنایا جا سکے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ بھی بہتر ہو۔ حکومت کو اس حوالے سے مزید قانونی اصلاحات کرنی ہوں گی اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔