ہائپو گیمی ایک معاشرتی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ عورت اپنی سماجی، تعلیمی یا معاشی حیثیت سے کم تر مرد سے شادی کرے۔ اگرچہ دنیا بھر میں روایتی طور پر ہائپرگیمی یعنی عورت کا اپنے سے بہتر مرد سے شادی کرنازیادہ عام ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں اب ہائپو گیمی کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔آئیے اس کی وجوہات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
خاندانی دباؤ اور روایتی رشتے
پاکستانی معاشرہ اکثر خاندانی بنیادوں پر فیصلے کرتا ہے۔ خاندان کی عزت، قریبی رشتہ داریوں کو ترجیح، اور جلد شادی کے دباؤ کی وجہ سے لڑکیوں کو ایسے رشتے قبول کرنے پڑتے ہیں جہاں لڑکا تعلیمی یا معاشی طور پر کم تر ہو۔ اکثر لڑکیوں کو یہ کہہ کر مجبور کیا جاتا ہے کہ “رشتہ نیک ہے، کمائی تو اللہ دیتا ہے۔”
عمر کے بڑھنے کا دباؤ
عمر گزرتے ہی لڑکیوں پر شادی کے لیے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ 25 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین کو “بوڑھی” سمجھا جاتا ہے، اور اس دباؤ میں بعض اوقات وہ ایسے رشتے قبول کر لیتی ہیں جو ان کی تعلیم یا معیار کے مطابق نہیں ہوتے۔
تعلیم یافتہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد
پاکستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن مردوں کی تعلیم میں اس تناسب سے تیزی نہیں دیکھی گئی۔ اس وجہ سے کئی تعلیم یافتہ خواتین کو تعلیم یا سوچ کے لحاظ سے کم تر مردوں سے شادی کرنی پڑتی ہے۔
معاشی خودمختاری اور خود اعتمادی
بعض خواتین معاشی طور پر مستحکم اور خودمختار ہوتی ہیں، اس لیے وہ شادی کے لیے مرد کی آمدنی کو بنیادی شرط نہیں سمجھتیں۔ وہ جذباتی، فکری ہم آہنگی اور ذاتی خوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسے میں وہ کم تعلیم یافتہ یا کم آمدنی والے مگر نرم خو، وفادار اور محبت کرنے والے مرد سے شادی کر لیتی ہیں۔
طبقاتی فرق کا مٹنا
بعض اوقات محبت یا دوستی کی بنیاد پر شادی ہو جاتی ہے، جو کہ سماجی یا معاشی سطح پر عدم مطابقت کا باعث بنتی ہے۔ جدید سوچ رکھنے والے جوڑے طبقاتی فرق کو اہمیت نہیں دیتے، بلکہ ذہنی ہم آہنگی کو فوقیت دیتے ہیں۔
رشتہ نہ ملنے کی مجبوری
بعض علاقوں یا خاندانوں میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تعلیم یا سوچ کی وجہ سے رشتے ملنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، جس کے باعث وہ کم معیار والے رشتے کو قبول کر لیتی ہیں تاکہ سماجی دباؤ اور تنہائی سے بچا جا سکے۔
پاکستان میں ہائپوگیمی ایک پیچیدہ سماجی رجحان بنتا جا رہا ہے جو کہ معاشرتی دباؤ، تعلیمی ناہمواری، خواتین کی خودمختاری، اور روایتی اقدار جیسے عوامل سے جڑا ہوا ہے مگر سب سے اہم محرک مناسب رشتہ نہ ملنا ہے جس کے نتیجے میں معاشرتی دبائو اور بڑھتی ہوئی عمر کے پیش نظر تعلیمی معاشی اور معاشرتی لحاظ سے کم تر شخص کا بھی ساتھ قبول کر لیا جاتا ہے ۔ ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب ان شادیوں کا چلنا بھی مشکل ہوتا ہے اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ ہائپو گیمی کے رجحان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور رشتے جوڑتے وقت ہم آہنگی کو ضرور مدنظر رکھا جائے۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔