شادی کی اہمیت ہر انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ہوتی ہے،جلدی یا بدیر ہر کسی نے اپنی زندگی میں شادی کرنی ہوتی ہے کیونکہ دنیا کا نظام زندگی اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔پاکستان میں شادی کی تقریب کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے۔متوسط طبقے میں شادی کی تیاری سالوں پہلے سے شروع ہو جاتی ہے۔ شادی کے لیے جمع کی گئی رقم کو شادی کی چند دن کی تقریب پر خرچ کر دیا جاتا ہے جبکہ دنیا کے باقی ممالک میں شادی کی تقریب پر عام طور پر اتنا پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا جتنا جنوبی ایشیائی ممالک میں کیا جاتا ہے۔یہ تمام خرچے کن چیزوں پر ہوتے ہیں اور ان کو ہم کس طرح کم کر سکتے ہیں آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔
ڈیکوریشن اور کھانا
ایک وقت تھا جب لوگ اپنے گھر یا قریبی لان میں شادی کی تقریب منعقد کر لیا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ اچھے کی دوڑ میں شادی ہال کے بعد مارکیز اور اب فارمز پر شادی کا رجحان عام ہے۔ان شادیوں میں نکاح، قوالی نائٹ،مایوں،مہندی،بارات،ولیمہ،چوتھی جیسے دنوں کے لیے الگ الگ تھیمز استعمال کی جاتی ہے اور یہ تھیمز ایسا ماحول بنا دیتی ہیں جیسے آپ پریوں کے دیس میں آ گئے ہوں۔اسی طرح کھانے پر بھی لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جو عام پاکستانی کے بس کی بات نہیں۔اگر سمجھداری سے کام لیا جائے تو اپنے کسی جاننے والے سے ڈیکوریشن میں مدد لے کر کسی قریبی لان میں بھی شادی کی تقریب کی جا سکتی ہے،ہزاروں لوگ جمع کرنے کے بجائے صرف اپنے قریبی لوگوں کو بھی بلا کر ایک بہترین تقریب منعقد کی جا سکتی ہے۔
زیوراور شادی کے کپڑے
پاکستان میں سونے اور زیورات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسے میں تھوڑا زیور بھی لاکھوں کی بات ہے۔سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے اب لوگ آرٹیفیشل جیولری کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔شادی کے کپڑے بھی اب لاکھوں میں بنتے ہیں خاص طور پر جب سے برینڈز کی دوڑ لگی ہے کیونکہ اب ہر کسی کومشہور برینڈ کے کپڑے پہننے ہوتے ہیں جبکہ یہ ہی کپڑے مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ گھر پر یا اپنے کسی جاننے والے کی مدد سے بھی بنائے جا سکتے ہیں جبکہ لوکل مارکیٹ سے خود بھی ایک اچھا جوڑا تیار کیا جاسکتا ہے اور زیور اور کپڑوں کے خرچے کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
گھریلو سامان
ہمارے معاشرے میں جہیز کے نام پر لڑکی کو بے تحاشا گھریلو سامان یہاں تک کہ کار بھی جہیز میں دی جاتی ہے اور بعض لوگ گھر کو پورا سجا کر بھی دیتے ہیں۔اس بارے میں غور طلب بات یہ ہے کہ لڑکی کووہ کچھ بھی دیا جاتا ہے جس کی اسے ضرورت نہیں ہوتی اور صرف دنیا کو دیکھانے کے لیے ٹرک بھر کر سامان بھیج دیا جاتا ہے جبکہ سمجھداری کاتقاضا ہے کہ اس کے بجائے صرف ضرورت کا سامان دے دیا جائے تو وہ زیادہ بہتر آپشن ہے کیونکہ وہ زیادہ تر سامان لڑکی کے کام بھی نہیں آتا اور ایک بڑی رقم فضول چیزوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کسی کے پاس بہت پیسے ہیں تو وہ بیٹی کے نام پرپیسے بینک میں بھی جمع کروا سکتے ہیں جو بعد میں لڑکی کے کام آ سکتے ہیں۔
دیگر اخراجات
شادی کے اخراجات کی ایک لمبی لسٹ ہے لیکن یہاں ہم صرف پارلر،فوٹو گرافر وغیرہ کا ذکر کریں گے۔ایک سے بڑھ کر ایک کی دوڑ کے اس زمانے میں جب آپ شادی پر سوچے سمجھیں بغیر خرچ کریں گے تو یہ لا محدود خرچ بھی ہو سکتا ہے اور مہنگائی کے اس دور میں یہ اخراجات آخر میں قرض کی رقم لے کر ہی پورے کیے جاتے ہیں۔تو آپ بھی اگر مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ اپنے کسی جاننے والے کی مدد کے ذریعے بھی بہت سے اخراجات کو کم کر سکتے ہیں اور خاص طور پر اگر ان کی بکنگ پہلے کروا لی جائے تو خرچ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
سدباب
بے جا اخراجات کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پسند نہیں کیا جاتا اور ہمارا دین بھی ہمیں سادگی اپنانے کا درس دیتا ہے اس لیے وقتی دکھاوے کے شوق میں اپنی حیثیت سے زیادہ پیسے خرچ کرنا صرف بے وقوفی ہے اور خاص طور پر پاکستان جیسے ملک جہاں مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور عام آدمی کے لیے اپنا روزمرہ کا گزارا کرنا بھی مشکل ہے وہاں شادی جیسے مقدس بندھن کو نمودو نمائش کے لیے استعمال کرنا سمجھداری نہیں۔اس لیے لوگوں میں سادگی اپنانے کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے،انھیں شعور دینا بہت ضروری ہے کہ وقتی نمو دو نمائش کے بعد وہ بہت سے مسائل میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔اس ے لیے اس کے لیے قوانین بنائیں جائیں تاکہ لوگ شادیوں پر کم سے کم خرچا کریں جس طرح پنجاب میں ون ڈش کا قانون ہے اسی طرح دوسرے قوانین بھی بنائیں جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔