پاکستان میں کم عمر دلہنوں کی بلند شرح بتدریج کم ہو رہی تھی لیکن 2022 میں غیر معمولی سیلاب کے بعد، موسمیاتی معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے ایسی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں پیسوں کے بدلے لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے تاکہ معاشی مسائل کم ہو سکیں ۔ایسی دلہنوں کے لیے رائج لفظ “مون سون برائیڈز ” ہے۔مون سون کا موسم لاکھوں کسانوں کی روزی روٹی اور غذائی تحفظ کے لیے بہت اہم ہے۔لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انہیں بھاری اور طویل بنا رہی ہے، جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور فصلوں کو طویل مدتی نقصان کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔سندھ کے بہت سے دیہات 2022 سے ٹھیک نہیں ہوئے ہیں۔ سیلاب جس نے پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی کے اندر ڈوب کر لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا اور فصلیں برباد کر دیں اور ان سب حالات کے اثرات 2024 تک بھی نظر آرہے ہیں جس نے ان علاقوں میں کم عمری میں شادی کو بڑھاوا دیا ہے۔
پاکستان کے کچھ حصوں میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں۔ مختلف علاقوں میں قانونی عمر 16 سے 18 کے درمیان ہوتی ہے، لیکن قانون شاذ و نادر ہی نافذ ہوتا ہے۔یونیسیف نے بچوں کی شادی کو کم کرنے میں “اہم پیش رفت” کی اطلاع دی ہے، لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شدید موسمی واقعات لڑکیوں کو دلہن بننے کے خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔عام طور پر پیسوں کے خاطربہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی میں جلدی کرتے ہیں، ۔جس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہو جاتی تھی، اب ان کے پانچ بچے ہیں، اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے واپس آتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر بے روزگار ہیں۔
یہ مسئلہ صرف مالی مشکلات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے پیچیدہ سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی رویوں میں اس قدر بے حسی آ چکی ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور ان کی فروخت کو ایک سماجی حق اور حقیقت سمجھا جا رہا ہے۔ روایتی پابندیوں، مالی دباؤ اور معاشرتی بدحالی نے ایک ایسا المیہ جنم دیا ہے، جس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔