انسانی معاشرے کی بنیاد شادی کے رشتے پر ہے اور اسی وجہ سے شادی کی رسومات اتنی ہی قدیم ہیں جتنا قدیم انسان اس سیارے پر ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ کچھ رسومات ابھی تک قائم ہیں اور عجیب و غریب ہونے کے باوجود وہ انسانی معاشرے کا جز ہیں ۔جیسےبھارت اور پاکستان میں شادی کے روز دلہن کی بہنیں یا سہیلیاں دلہا کا جوتا چھپا لیتی ہیں اور اس کے بدلے میں دلہا سے رقم کا تقاضا کرتی ہیں۔دنیا کے باقی ممالک کے لیے یہ رسم بہت ہی عجیب ہے۔آئیے اس بلاگ میں ایسی ہی رسومات کا احاطہ کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہیں۔
بھارت
بھارت کے کچھ حصوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ ایک مخصوص فلکیاتی مدت کے دوران پیدا ہونے والی لڑکی منحوس ہوتی ہے اور اپنے پہلے شوہر کی موت کا باعث بنتی ہے۔اس لیے اس نحوست سے بچنے کے لیے پہلے اس لڑکی کی شادی ایک درخت سے کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد اس درخت کو کاٹ کر گرا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارتی ٹی وی چینل شگون ٹی وی صرف غیر شادی شدہ لوگوں کی تفصیلات نشر کرنے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔اس امید پر کہ کسی کا پروفائل دیکھ کر اس سے شادی کا خواہاں امیدوار رابطہ کرے گا تو ان دونوں کی آپس میں ملاقات کروا دی جائے گی
چین
چین کے علاقے داؤر میں شادی سے پہلے جوڑے کسی مرغے کو کاٹ کر اس کا جگر دیکھتے ہیں۔اگر اس کا جگر صحتمند ہو تو وہ شادی کے لیے کوئی ایک دن مقرر کر لیتے ہیں۔دوسری صورت میں وہ صحتمند جگر والے مرغے کی تلاش جاری رکھتے ہیں۔چین میں توجیا لوگوں کی ایک روایت ہے کہ شادی سے ایک ماہ قبل سے ہی دلہن کا روزانہ ایک گھنٹہ تک رونا ضروری ہے۔رونے کے اس سیشن میں دلہن کے خاندان کی خواتین بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ 30 دن تک رونے کے سیشن کے بعد شادی والے روز پورا خاندان جم کر روتا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین کا مختلف آوازوں کے ساتھ رونا خوشی لانے کا سبب بنتا ہے۔چین میں ہی جب دولہا اپنی دلہن کو لینے کے لیے آتا ہے تو اسے سب سے پہلے راستے میں دلہن کی ناراض سہیلیوں کی دیوار کو توڑنا پڑتا ہے جو کہ اس کا راستہ چھوڑنے کے لیے اس سے رقم کا مطالبہ کرتی ہیں اور عجیب و غریب فرمائشیں پوری کرواتی ہیں۔ اس سب کا مقصد صرف دلہن کے لیے اس کی محبت کا امتحان لینا ہوتا ہے۔چین کے بعض قبائل میں شادی کی ایک رسم یہ بھی ہوتی ہے کہ دولہا دلہن کو کندھوں پر اٹھا کر کوئلوں کے اوپر چلتا ہے.چینی صوبے یغور میں شادی کے دن دلہا اپنی دلہن پر تین تیر برساتا ہے اور پھر ان تیروں کو توڑ دیا جاتا ہے۔اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ یہ جوڑا ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت کرے گا۔ لیکن واضح رہے کہ دلہن کو مارے گئے تیروں کا سر یا نوک نہیں ہوتی۔
انڈونیشیا
انڈونیشیا کے جزیرے بورنیو کے شمال میں آباد قبیلہ “ٹیڈونگ” میں نئے شادی شدہ جوڑے پر تین دن تک رفع حاجت کی پابندی عائد کی جاتی ہے۔انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خاندان کے افراد تین دن تک جوڑے کی کڑی نگرانی کرتے ہیں، اس لیے دونوں میاں بیوی اس دوران پانی اور غذا کی کم مقدار لیتے ہیں۔دوسری عجیب رسومات کی طرح اسے بھی جوڑے کے لیے خوش قسمتی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ رسم ادا نہ کی جائے تو ان کے ہاں مردہ بچے پیدا ہوں گے یا شادی ٹوٹنے کا خدشہ رہے گا۔
جنوبی کوریا
جنوبی کوریا میں ہر ماہ کی 14 تاریخ کو بہت سے کورین جوڑے ویلینٹائن ڈے مناتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے خصوصی تحائف خریدتے ہیں۔جنوبی کوریا میں یہ بھی روایت ہے کہ شادی سے ایک دن پہلے دلہے کے پیروں کے تلووں پر مچھلی ماری جاتی ہے۔ بعض اوقات مچھلی کے بجائے چھڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل کا مقصد اس کے کردار کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہوتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ
اسکاٹ لینڈ میں کوئی ایسا قانون نہیں جس کے مطابق شادی کی کم سے کم عمر بیان کی جائے۔ اسی لیے ایسے کم عمر جوڑے جو برطانیہ میں شادی نہیں کر سکتے وہ بھاگ کر اسکاٹ لینڈ کا رخ کرتے ہیں۔اسکاٹ لینڈ میں گریٹنا گرین ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ مفرور جوڑے جاتے ہیں۔ہر سال 5 ہزار برطانوی جوڑے گریٹنا گرین کا رخ کرتےہیں۔
جرمنی
جرمنی میں شادی کے موقع کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ دلہا اور دلہن سب مہمانوں کے سامنے کسی درخت کے تنے کو کاٹتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ وہ دونوں اپنی آئندہ زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔جرمنی میں ہی شادی سے ایک روز قبل مہمان حضرات دلہا دلہن کے ہاں چینی و پورسیلین کے برتن لاتے ہیں اور شادی کی تقریب میں انہیں توڑتے ہیں۔اس عمل کو شادی شدہ جوڑے کی خوش بختی کا باعث سمجھا جاتا ہے نیز ان کے مطابق برتن کے تڑخنے کی آوازیں شیطانی ارواح کو بھگانے کا کام کرتی ہیں۔ تقریب میں توڑے گئے برتنوں کا ملبہ بعد میں دلہا اور دلہن مل کر صاف کرتے ہیں۔
موریطانیہ
موریطانیہ میں دیوقامت موٹی دلہن کو خوش بختی اور خوشحال شادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔بدقسمتی سے اس مقصد کے حصول کے لیے موریطانیہ کی خواتین کو شروع سے ہی زبردستی زیادہ کھلایا پلایا جاتا ہے جس سے بعض اوقات صحت کے شدید مسائل اور نہ ختم ہونے والی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔