شادی کا عالمی دن تجدید محبت کے جذبات کے ساتھ ہر سال دنیا بھر میں فروری کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی کی دہائی میں امریکہ میں جب اس دن کو منانے کا آغاز کیا گیا تو اس کا مقصد شادی کے رشتے کی اہمیت کو ابھارنا تھا۔اور ویلنٹائن ڈے کے قریب اسے منانے کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ لوگ شادی کے رشتے کی اہمیت کو سمجھیں ۔عالمی یوم شادی منانے کا مقصد اِس بات کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ میاں بیوی نہ صرف خاندان کے سربراہ ہیں بلکہ معاشرے کی بنیادی اِکائی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن پاکستان سمیت پوری دنیا میں معاشرے کی یہ بنیادی اکائی خطرے سے دوچار ہی جس کی وجوہات ہماری خود پیدا کی ہوئی ہیں ۔سب سے پہلے تو پاکستان میں رشتے ڈھونڈنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اب ڈیجیٹل ایپس جیسے کہ “دل کا رشتہ” ایپ نے یہ مسئلہ کافی حد تک حل کر دیا ہے۔
رشتہ مل جائے تو شادی کرنے کو ہم نے بہت مشکل کام بنایا ہوا ہے۔پاکستان میں شادی کی تقریبات کا انتظام کرنا دیوالیہ ہونے کے مترادف سمجھا جا تا ہے. عالمی یوم عروس منانے کا مقصد شادی کے اہم فریضے کی اہمیت پر روشنی ڈالنا ہے ۔تاہم بعض ممالک میں شادی کی رسومات کی ادائیگی نے مقدس فریضہ کو دو طرفہ ”شو“بنا کر رکھ دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں شادی پربناوٹ اور نمودو نمائش کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث کئی خاندان خواہشات کا گلا گھونٹ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔شادی کی رسومات کی ادائیگی میں حد سے زیادہ فضول خرچی ،معاشرے میں وسائل کی کمی کا شکار دوسرے افراد پرعرصہ حیات تنگ کر سکتی ہے ۔
شادی کے بعد بھی کئی ایسی باتیں ہیں جن کو ذہن میں رکھ کر ہی شادی کے رشتے کو نبھایا جا سکتا ہے۔یہاں ہم ان چند عوامل کا ذکر کر رہے ہیں جو شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
احترام
عزت و احترام خوشگوار ازدواجی تعلقات کا ایک نہایت اہم ستون ہے۔ اور کس بھی رشتے کی پائیداری میں واضح کردار ادا کرتا ہے۔ آپ خوش ہیں، غصے میں ہیں یا پریشان ہیں۔ اگر کسی بھی صورتحال میں آپ اپنے شریک_حیات کی عزت کرنا نہیں چھوڑتے تو آپ ایک بہترین جیون_ساتھی ہیں۔ احترام نہ صرف معاملات کو بگڑنے سے بچاتا ہے بلکہ آپ کے جیون ساتھی کا آپ پر اعتماد قائم رکھنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔
باہمی مشاورت
شوہر اور بیوی گاڑی کے دو پہئیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ایک پہیہ خراب ہو تو لازمی طور پر گاڑی کا توازن بگڑتا ہے۔ اور اسے چلانا ممکن نہیں رہتا۔ شوہراور بیوی تمام کاموں میں ایک دوسرے کو شریکِ مشورہ رکھیں۔ شوہر ایک داروغہ کی طرح گھر کا نظام چلانے کی کوشش نہ کرے۔ یا یہ امید نہ رکھے کہ افرادِ خانہ اس کے اشاروں پر چلیں۔ اور صرف اسی کی بات سنیں اور مانیں۔ بیوی اس کی زندگی کی ساتھی ہے تو بہتر ہو گا اگر تمام امور میں اس کا مشورہ لیا جائے۔ اور ہر کام باہمی مشاورت سے ہو تا کہ شادی کا رشتہ مضبوط ہو سکے۔
محبت اور ایثار
اگر یہ کہا جائے کہ ازدواجی تعلق کی بنیاد محبت اور ایثار پر استوار ہوتی ہے۔ تو بے جا نہ ہو گا۔ اگر رشتوں میں محبت نہ ہو تو خود غرضی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ انسان ہر معاملے میں اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ لیکن جہاں محبت ہو وہاں سب ایک دوسرے پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ بیوی شوہر کی نظرِ التفات کی خواہشمند ہوتی ہے۔ شوہر کی نگاہوں کا مرکز بنے رہنا اسے اچھا لگتا ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اچھا وقت گزارے۔ اس کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آئے۔ ہنسی مذاق کرے۔ اسے سیر و تفریح پر لے جائے۔ شادی کا بندھن انہیں چھوٹے چھوٹے اصولوں کو مدنظر رکھ کر پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
سمجھوتہ
شوہر اور بیوی دونوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئیے کہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔ جیسا کہ ارشادی باری تعالی ہے ۔
” اگر وہ(بیویاں) تمہیں ناپسند ہوں۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو۔ مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو”
( النساء : 19)
شوہر اور بیوی کی عادات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن شادی کا بندھن اسی صورت میں نبھایا جا سکتا ہے جب خامیوں سے صرف نظر کیا جائے اور خوبیوں کو مد نظر رکھا جائے۔ جیون ساتھی میں کوئی خامی دیکھیں تو اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ نہ کہ انہیں نظروں اور دل سے گرا دیں۔
موازنہ
ازدواجی تعلقات میں دراڑ اس صورت میں آتی ہے جب آپ اپنے جیون ساتھی کا دوسروں سے موازنہ کرنے لگیں۔ خدا نے ہر انسان کو ایک الگ تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ دو انسان ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ شادی طے کرتے وقت اگر لڑکے اور لڑکی دونوں کو ایک دوسرے کی عادات کے بارے میں بتا کر ان کی رضامندی لے لی جائے۔ تو شادی کے بعد صورتحال خراب ہونے سے بچ سکتی ہے۔ ورنہ شوہر اور بیوی کی عادات اور مزاجوں کا فرق شادی کا بندھن خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور ایسی صورت میں اگر آپ اپنے شریک حیات کا موازنہ دوسروں سے کرنے لگیں تو حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑتے ہیں۔
حقوق و فرائض سےآگاہی
اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی اور ان کی پاسداری کرنے سے شادی کا بندھن فولاد جیسا مضبوط ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک ماں کا فرض ہوتا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال اورتعلیم و تربیت کرے۔ باپ کا فرض ہے کہ خاندان کی کفالت کرے۔ اسی طرح بیوی کا فرض ہے کہ شوہر کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔ جن رشتوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہی پائیدار ہوتے ہیں۔ اور رشتوں میں توازن بھی وہی شخص برقرار رکھ سکتا ہے۔ جسے اپنے فرائض کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال ہو۔ بالفرض کسی کو اپنے حقوق یا فرائض نہ بھی معلوم ہوں۔ تو اللہ کی رضا جان کر اور ثواب کی نیت سے بھی دوسروں کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔
شادی کے رشتے کومضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ شریک حیات ایک دوسرے سے پرخلوص ہوں، محبت کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو کھلے دل سے معاف کریں۔ خامیوں کو نظر انداز کریں اور خوبیوں پر نظر رکھیں۔ زوجین میں اگر یہ خصوصیات ہوں۔ تو ایک گھرانہ بلکہ پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔