11 جولائی کو دنیا بھر میں عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔دنیا میں آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ آبادی کا عالمی دن منانے کا مقصد آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور حل کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت، خواتین اور مردوں میں برابری کے اصول کا فروغ، غریب کے مسئلے پر تیزی سے بڑھتی آبادی کے تناظر میں غور و فکر اور زچہ بچہ کی صحت کا خیال رکھنا اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق اس وقت عالمی آبادی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کی آبادی میں سالانہ 8 کروڑ افراد کااضافہ ہورہا ہے.ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگر دنیا کی آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو آئندہ 50 برسوں کے دوران اس کرہ ارض پر مزید 2 سے 4 ارب لوگوں کا اضافہ ہوجائے گا۔آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال دنیا میں کروڑوں انسانوں کا اضافہ ہو جاتا ہے مثلاً فروری 2016ء میں آبادی 7 ارب 40 کروڑ تک پہنچ گئی اور اپریل 2017ء میں بڑھ کر 7 ارب 50 کروڑ ہو گئی۔نومبر 2019ء میں یہ 7 ارب 70 کروڑ تک پہنچ گئی۔ ۔ اس تیزی سے بڑھتی آبادی نے پاکستان کو دنیا کی آبادی میں اضافے کا تیسرا بڑا حصہ دار بنا دیا ہے۔ 2.4 فیصد کی بلند ترین شرح پیدائش کی وجہ سے ہم ہر سال اپنی آبادی میں تقریباً 50 لاکھ بچوں کا اضافہ کر رہے ہیںاس غیر معمولی شرح پیدائش کے سنگین نتائج ہیں جن میں سماجی مسائل سے لے کر قومی سلامتی تک کے خطرات شامل ہیں۔ہم انسانی ترقی کے انڈکس میں اس وقت 192 ممالک میں سے 161 ویں نمبر پر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نصف آبادی کو صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ تقریباً ً ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافے کا بنیادی سبب بلند شرح پیدائش ہے۔ ہمیں 2030 تک اپنی آبادی میں اضافے کو 2.4 فیصد سالانہ سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں آبادی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے دوسرے ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئےفوری طور پر چند اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
1۔ ان میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ حکومت بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لے۔
2۔ والدین کو اپنی اولاد کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سے آگاہ کرنے کے لیے جمعہ کا ممبر استعمال کیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ اس حوالے سے ان سے جوابدہی کی جائے گی۔ وزارت مذہبی امور اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
3۔ خواتین کی تعلیم آبادی کو کنٹرول کرنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور معاشی خود مختاری کو ہدف بنایا جائے۔ خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کی حوصلہ افزائی انہیں اپنے خاندان سے متعلق سوچے سمجھے فیصلے کرنے میں با اختیار بنا سکتی ہے۔
4۔ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن کمیٹی کو فعال بنایا جائے اور بین الشعبہ جاتی تعاون کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز کو موثر بنایا جائے۔
5۔ پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے ذریعے تمام بنیادی و دیہی مراکز صحت میں خاندانی منصوبہ بندی کی کاونسلنگ اور خدمات کو یقینی بنایا جائے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔