پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرتی نظام میں گہرائی سے پیوست ہو چکا ہے۔ یہ صرف ایک قانونی یا عدالتی معاملہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے جس کے پیچھے دکھ بھری کہانیاں، دبے جذبات، اور ٹوٹے خواب چھپے ہوتے ہیں۔ ہر کم عمر دلہن کی زندگی ایک ایسی خاموش چیخ ہے جو نہ صرف اس کی ذات کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے خاندان اور پورے سماج پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔
اس مسئلے کو صرف اعداد و شمار کی نظر سے دیکھنا کافی نہیں، کیونکہ ان اعداد کے پیچھے وہ حقیقتیں چھپی ہیں جو دل دہلا دیتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 1.9 کروڑ لڑکیاں بچپن ہی میں شادی کے بندھن میں جکڑ دی جاتی ہیں۔ ہر چھٹی لڑکی اپنے بچپن، تعلیم، اور آزادی سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ خواب جو ابھی پروان چڑھنے تھے، وہ خواہشات جو ابھی جنم لینی تھیں، سب وقت سے پہلے دفن ہو جاتی ہیں۔ایسی بچیاں جن کی زندگی ابھی شروع ہوئی ہوتی ہے، وہ گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ نہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے، نہ زندگی کو سمجھنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق۔ اعداد و شمار کے مطابق 18 فیصد لڑکیاں 18 سال سے پہلے شادی کر لیتی ہیں جبکہ 4 فیصد بچیاں صرف 15 سال کی عمر میں دلہن بن جاتی ہیں۔ یہ شادیاں نہ صرف ان بچیوں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
اس سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے طویل عرصے سے کوششیں جاری تھیں، اور بالآخر کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی عمل میں آ گئی ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے، جو کہ ایک اہم قدم ہے، لیکن اصل کامیابی تب ہو گی جب ان قوانین پر عملدرآمد بھی مؤثر طریقے سے کیا جائے گا۔
۔
کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی سے متعلق بل کے مطابق 18سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم قراردیا گیا ہے۔بل کے مطابق نکاح رجسٹرار کم عمر بچوں کی شادی کا اند راج نہ کرنے کے پابند ہونگے،نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے سے قبل دونوں فریقین کے کمپیوٹررائز شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائے گا۔بنا کوائف کے نکاح رجسٹر کرنے یا پڑھانے پر ایک سال قید ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہونگی،18سال سے کم عمر لڑکی سے شادی بھی جرم قراردیا گیا ہے۔18سال سے زائد عمر کے مرد کی کمسن لڑکی سے شادی پر سزا مقررکی گئی ہے ، بل کے مطابق کمسن لڑکی سے شادی پر کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہوگی،کمسن لڑکی سے شادی پر جرمانہ بھی ہوگا۔کم عمر بچوں کی رضامندی یا بغیر رضامندی شادی زیادتی تصور ہوگی،نابالغ دلہن یا دولہے کو شادی پر مائل یا مجبور کرنے، ترغیب دینے اور زبدستی کرنے والا شخص بھی زیادتی کا مرتکب قرارپائے گا۔نابالغ بچے یا بچی کی شادی کرانے پر 5 سے 7 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہونگی،شادی کی غرض سے کسی بچے کو ملازمت پر رکھنےپر جرمانہ اور 3 سال قید کی سزا ہوگی۔18سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر والدین اور سرپرست کے لیے بھی سزائیں مقررکی گئی ہیں، بل کے مطابق کمسن بچوں کی شادی پر والدین کو 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہوگی۔شادی کے لیے کمسن بچوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور یا زبردستی کرنا بچوں کی اسمگلنگ قرار پائے گا،بچوں کی اسمگلنگ کے مرتکب شخص کو 5 سے 7 سال قید اور جرمانے کی سزائیں ہونگی۔عدالت کم عمر بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات 90 روز میں نمٹانے کی پابند ہوگی۔
پاکستان میں تمام مسائل کے خاتمے کے لیے قوانین موجود ہیں اور آئے دن نئے سے نئے بل سامنے آتے رہتے ہیں۔مسائل کے حل کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کے بارے میں آگاہی پیدا کیا جائے اور عوام کو شعور دیا جائے کہ ان قوانین پر عمل کرنا کتنا اہم ہے۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔