کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے، مگر سوشل میڈیا پر ایک کم عمر جوڑے کی ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہورہی ہے، جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کم عمر جوڑا شادی کے بندھن میں بندھنے جارہا ہے۔سوشل میڈیا ذرائع کے مطابق 13 سالہ محمد قاعد کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ بچے نے اپنی والدہ سے ضد کی کہ اس کی شادی کرائی جائے گی تو ہی وہ پڑھائی میں دلچسپی لے گا۔ بچے کے بہت زیادہ اصرار پر ماں نے بھی حامی بھرلی۔سوشل میڈیا پر13 سالہ قاعد اور 12 سالہ علیزے کی تصاویر اور ویڈیوزوائرل ہورہی ہیں، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں شرما رہے ہیں۔حیران کُن بات یہ ہے کہ علیزے ساتویں جماعت جبکہ اس کے مقابلے میں محمد قاعد چھٹی جماعت میں ہے۔
پاکستان میں کم عمری یا بچپن کی شادی کی روایت بہت پرانی ہے۔ہمارے معاشرے میںوہ عمر جس میں کسی بھی انسان کے پڑھنے اور سیکھنے کے دن ہوتے ہیں شادی ہو جانا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہےبلکہ اب کیونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے تو جب کوئی چھوٹی عمر میں شادی کی خبر ملے تو اسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔لوگ ایسی خبروں پر تنقید کرنے کے بجائے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس خبر کو پیش کرنے والے کے لاکھوں ویوز اور کمنٹس ہوتے ہیں ۔یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ ان سب باتوں کا ان بچوں کی آگے آنے والی زندگی پر کیا اثر پڑے گا بلکہ ایسی باتوں کو خوب پھیلایا جاتا ہے۔لوگ جو دیکھتے ہیں وہ ہی کرتے ہیں اور اس معاملوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ایسی باتوں کو جب بہت شاندار بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کچھ اور والدین کے دل میں بھی یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ ہم بھی ایسا کریں اور یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ قاہرہ کے شمال میں واقع ایک گاؤں میں پیش آیا تو وہاں حالات مختلف تھےجب ایک خاندان کے بچے اوربچی کی آپس میں منگنی کی تقریب منعقد کی گئی جس میں بچی کی عمر 10 سال سے بھی کم تھی اور وہ چوتھی کلاس کی طالبہ تھی جبکہ بچہ 12 سال کا تھااور چھٹی کلاس میں زیر تعلیم تھا تو حکومت نے فوری ایکشن لیا۔جب خاندان والوں سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تو دولہے کی والدہ نے بتایا کہ یہ منگنی بچے کے دادا کی خواہش پر منعقد کی گئی تھی۔ خاندان کے بڑے بزرگ بچے کا دادا اور بچی کا نانا تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ خاندان کو جوڑ کر رکھا جائے اور آپس کی ہم آہنگی سے رشتوں کو بڑھایا جائے۔اس منگنی کی اطلاعات پر قومی کونسل برائے بچپن اور زچگی نے فوری مداخلت کی اور دونوں بچوں کے والدین سے “منگنی” روکنے اور قانونی عمر کی تکمیل تک شادی کو مکمل نہ کرنے کا عہد حاصل کیا۔
کونسل کے سیکرٹری جنرل نے وضاحت کی کہ چائلڈ ہیلپ لائن 16000 نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے کی نگرانی کی اور فوری طور پر گورنریٹ میں چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی کو واقعہ کی صداقت کی تحقیقات کا کام سونپا گیا۔چائلڈ ہڈ پروٹیکشن کمیٹی فوری طور پر دونوں بچوں کے گھر پہنچی اور دونوں بچوں کے خاندانوں کو جلد شادی کے خطرات کے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔دونوں خاندانوں نے اس واقعہ کی تمام تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔مصری قانون میں کہا گیا ہے کہ دو افراد کی شادی میں کسی ایک کی عمر بھی شادی کے وقت اٹھارہ سال سے کم ہو گی تو اس شادی کرانے والے ایک سال تک قید کی سزا دی جائے گی اور50 ہزار سے لیکر 2 لاکھ پاؤنڈ تک کا جرمانہ کیا جائے گا۔
اس قسم کا ردعمل ہمارے ملک میں بھی آنا چاہیے تھا لیکن کیا کریں کہ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔عوام کو فضول باتوں کے پیچھے لگایا گیا ہے اور کاروائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔نسل در نسل غلطیاں دہرائی جاتی ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہمرا سسٹم بہتر کیوں نہیں ہوتا؟یہ سوال ہمیں خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔