کبھی آ پ نے سوچا ہے کہ شادی کے رشتے اور چائے ٹرالی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟پاکستان میں بیٹیوں کے مناسب رشتے کی تلاش میں مائیں بیٹیوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کے سامنے چائے لے کر آئیں۔بظاہر یہ ایک بے ضرر سی روایت نظر آتی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔معا شرتی روایات پر من و عن عمل کرنا ان لڑکیوں کے لیے خطر ناک نتائج سامنے لاتا ہے۔اس تحریر میں ہم اس بات کو جاننے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح پاکستان میں جاری چائے ٹرالی کلچر ایک انتہائی فرسودہ رسم ہے جس کاخاتمہ نا گزیر ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جب شادی کروانے کے روائتی طریقہ کار کی بات کی جائے تو افسوس سے کہنا پڑے گا کہ یہ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے گھٹن سے بھر پور ہے۔اس عمل کا آغاز چائے کی ٹرالی پیش کرنے سے ہوتا ہے۔اس ملاقات کی ذمہ دار ایک رشتہ کروانے والی آنٹی(بچولن) ہوتی ہیں جو لڑکی سے ایسے سوالات پوچھتی ہے جو انتہائی ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور تمام تر معلومات فراہم کرنے کے باوجود ان رشتوں میں خواتین کی مرضی کو اہمیت نہیں دی جاتی اور کسی نیلامی کی طرح سب سے زیادہ پیسے والے کے ساتھ رشتہ کروا دیا جاتا ہے اورانھیں ایسے رشتے میں جوڑ دیا جاتا ہے جس میں ان کی مرضی بھی نہیں پوچھی جاتی۔
:خواتین پر نفسیاتی اثرات
چائے ٹرالی پر کی گئی رشتے داریاں دونوں اطراف کے لوگوں اور خاص طور پر خواتین کے لیے زیادہ تکلیف کا باعث ہوتی ہیں۔ایک اچھے رشتے کی تلاش میں ان خواتین کو سخت باتوں اور تنقید کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور ان سے ایسی باتوں کی امید کی جاتی ہے جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔یہ سب گھٹن اور نا امیدی سے اٹے ہوئے ماحول کی پرورش کا باعث بنتا ہے۔اس عمل سے گزرنے والے افراد کو محسوس ہوتا ہے شاید وہ کوئی نمائشی جنس ہیں جس کے بارے میں منفی رائے بھی دی جاتی ہے جو ان کے اندر احساس کمتری کو جنم دیتا ہے۔ جب کسی بھی انسان کی ظاہری حالت جیسے رنگت،قد، وزن،بال اور اسی طرح اس کی تعلیم اور قابلیت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی کھونا شروع کر دیتا ہے۔
ایک اچھے رشتے کی تلاش نو جوان لڑکیوں کو ڈپریشن کی مریض بنا دیتا ہے جس میں جب وہ کا میاب نہیں ہو پاتیں تو ان کو نیچا دیکھانے میں ان کے اپنے بہن بھائی بھی پیچھے نہیں رہتے اور معاشرے کی جانب سے بھی ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح ایک غلط روایت کا خمیازہ عمر بھر بھگتنا پڑتا ہے۔یہ سب ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتاہے جس میں کسی بھی فرد کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے جو کسی بھی دباؤ کے بغیر اپنی شریک حیات کو چن سکے اور اس کے لیے روائتی طریقوں کو اپنانے کے بجائے مناسب جدید طریقوں کو اپنا یا جائے اور اس بات کو سمجھا جائے کہ اس غلط طریقہ کار کے منفی اثرات کو سمجھنے کے بعد ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔
منفی اثرات سے بھر پور اس عمل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کو اس تکلیف دہ عمل سے بچایا جائے اور نہ صرف اس کے بارے میں آگاہی دی جائے بلکہ اس کا بائیکاٹ بھی کیا جائے۔پاکستانی خواتین کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی بے جا دخل اندازی کے بغیر اپنی پسند کے انسان کا انتخاب کر سکیں جس کے ساتھ وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔ٹرالی پیش کرنے کا یہ کلچر نہ صرف خواتین بلکہ وسیع پیمانے پرمعاشرے کو بھی متاثر کر رہا ہے۔یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ نہ صرف اس روایت کو ختم کیا جائے بلکہ آگا ہی پھیلا کر مناسب قانون سازی بھی کی جائے اور ممکن ہو تو اس کے خلاف قانونی اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔
جدید معاشرے کی تشکیل میں شادی کروانے والی ایپس بھی بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔ .”دل کا رشتہ“ ایک ایسی ہی ایپ ہے جو نہ صرف رشتے کروا رہی ہے بلکہ اپنے صارفین کے گھروں پر خود جا کر معلومات بھی حاصل کر رہی ہے تا کہ اس عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنایا جا سکے۔
ایپ پر ایسے لاکھوں پرو فائل مو جود ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی فرد اپنے مذہب،ذات،تعلیم،قابلیت،قد،پیشہ،ظاہری خدوخال اور پسند اور نا پسند کے مطابق ایک ایسے شخص کا انتخاب کر سکے جو ایک مثالی شریک حیات بن سکے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو جاتا ہے جب ایک پرو فائل کسی دوسرے پرو فائل سے میچ کر جائے جس کے بعد میچ ریکوئسٹ بھیجی جاتی ہے اور قبول کر نے کے بعد بات چیت کے ذریعے دونوں اطراف کے افراد ایک دوسرے کو جان پاتے ہیں۔
ایک دوسرے کو جاننے کے صاف شفاف عمل کے ذریعے نہ صرف چائے ٹرالی کلچر سے جان چھڑائی جا سکتی ہے بلکہ احسن طریقے سے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔شادی کرنے کا یہ جدید طریقہ نہ صرف نو جوان نسل کو فا ئدہ پہنچا رہا ہے بلکہ ان کے والدین کے لیے بھی اطمینان کا باعث ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔