پوسٹ پارٹم اُن پیچیدہ قسم کی تبدیلوں کا نام ہے جوایک عورت کے جسم میں اس وقت رونما ہوتی ہیں جب وہ ماں بنتی ہے۔
پی پی ڈی ایک ایسا ڈپریشن ہے جس کا آغاز عام طور پر کسی بھی عورت میں بچے کی پیدائش کے بعد پہلے چار ہفتوں میں ہوتا ہے۔پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی تشخیص اس پیمانے سے ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش کو کتنا عرصہ ہوا ہے اور اس کی شدت کتنی ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا تعلق ان تبدیلیوں سے ہے جو آپ کے جسم،دماغ اور سماجی رویے میں رونما ہوتی ہیں۔اس ٹرم میں وہ تمام جسمانی اور جذباتی تبدیلیاں آتی ہیں جن سے ایک عورت گزرتی ہے۔اس کے علاج کے لیے دوائیاں اور تھراپی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
بچے کی پیدائش کے بعد ہارمون لیول تیزی سے گرنا شروع ہو جاتا ہے جس کے سبب ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہارمون لیول کا نیچے گرنا ڈپریشن کا باعث کیسے بنتا ہے۔ان کیمیائی تبدیلیوں کے علاوہ سماجی اور ذہنی تبدیلیاں جو بچے کی پیدائش کے بعد رونما ہوتی ہیں وہ بھی اس ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں۔
ریسرچ بتاتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد دس میں سے ایک باپ بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی علامات ڈھونڈنا مشکل ہے کیونکہ وہ تمام علامات ایک عام عورت میں بھی ظاہر ہوتی ہیں جیسے۔
سونے میں مشکل پیش آنا
بھوک میں کمی
شدید تھکاوٹ
موڈ میں تبدیلی
پوسٹ پارٹم میں ان علامات کے علاو کچھ اور علامات بھی ہیں جو عام طور پر بچے کی پیدائش کے بعد ظاہر ہوتی ہیں جیسے۔
ماں کی بچے کے ساتھ محبت میں کمی
بلاوجہ کا رونا
اداسی
غصہ اور چڑ چڑاپن
کسی بات سے لطف اندوز نہ ہونا
اپنی آپ کو بے کار سمجھنا،نا امید ہونا
مرنے یا کسی کو مارنے کا دل کرنا
لوگوں کی تکلیف سے خوش ہونا
فیصلہ نہ کر سکنے کی صلاحیت
توجہ قائم نہ رکھ پانا
پی پی ڈی جسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن بھی کہتے ہیں ایک ایسا موضوع ہے جسے پاکستان میں رد کیا گیا ہے اور اس کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔بعض لوگ تو اس کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کو ختم کرنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن نے ایشیا کی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی،ثقافتی اور سماجی مسائل نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کو بڑھانے میں اپنا اپنا خاص کردار ادا کیا ہے۔پاکستانی خواتین اگر کسی اور ملک میں ہوں وہ تب بھی ان ہی مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔
وہ خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی رہتی ہیں اور حالات بد سے بدتر ہوتے رہتے ہیں۔ایشیاء کی خواتین میں یہ سب سے پایاجاتا ہے۔ان میں یہ 28سے63فیصد خواتین میں پایا جاتا ہے۔پانچ میں سے ایک خاتون حمل کے دوران یا بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اسی طرح مردوں میں بھی یہ بچے کی پیدائش کے بعد پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں خواتین پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجہ سے عجیب و غریب مسائل کا شکار ہیں کیونکہ سب سے پہلے تو یہاں ذہنی مسائل کو ایک بُرائی جانا جاتا ہے اور بہت سے خواتین مدد لینے سے بھی گھبراتی ہیں کہ کہیں ان پرطرح طرح کی باتیں نہ کی جائیں جس سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں اور اس طرح وہ ایک خطرناک تنہائی اور مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔لیکن امید ابھی بھی باقی ہے۔سب سے اہم یہ ہے کہ میڈیکل پرو فیشنلز اور گائنا کا لو جسٹ سامنے آئیں اور لوگوں کو بتائیں کہ اصل میں یہ مسئلہ ہے کیا،آگاہی پیدا کریں اور لوگوں کی مدد کریں۔ان لوگوں کی بھی مدد کریں جو دور دراز علاقوں میں شہر سے دور رہتے ہیں جہاں سہولیات اور آگاہی کی کمی ہے۔
اگر آپ پوسٹ پارٹم کی تکلیف برداشت کر رہی ہیں تو ضروری ہے کہ آپ اپنا مسئلہ بیان کریں اور مدد حاصل کریں کیونکہ بات کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اور بھی بہت سی خواتین ہیں جو یہ سب برداشت کر رہی ہیں اور اس طرح آپ کو ان کی بھی سپورٹ ملے گی اور علاج میں بھی مدد ملے گی۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔