پاکستان میں چائلڈ میرج یا کم عمری کی شادی ایسا سنگین مسئلہ ہے جس سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین میں سے ایک بچی کی شادی 18سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔چھوٹی عمر کی شادی کے نتائج دور رس ہیں اس سے نہ صرف ان بچیوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی پوری عمر متاثر ہوتی ہے۔چھوٹی عمر کی شادی سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں غربت،تعلیم اور روز گار کے محدود مواقع اور زچگی میں شرح اموات میں اضافہ شامل ہیں۔اس بلاگ پوسٹ میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح پاکستان میں قانونی ڈھانچہ چائلڈ میرج کوختم کرنے کے لیے قوانین کو نابالغ بچیوں اور ان کی کمیونٹی پر لاگو کرتا ہے۔
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929کے مطابق لڑکوں کی شادی کی قانونی عمر 18سال جبکہ لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 16سال ہے تاہم اس قانون کو اکثر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ بہت سے خاندان اس قانونی عمر سے پہلے اپنے بچوں کی شادی کر دیتے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے ایک بل کے ذریعے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر18سال تک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بل نے ابھی تک قانون کی شکل اختیار نہیں کی۔
پاکستان میں نا بالغ بچیوں کی زبر دستی شادی کروا دینا ایک اور اہم مسئلہ ہے جو کم عمری کی شادی سے جڑا اہم مسئلہ ہے۔ایسی شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں اور اس میں بچیوں کی مرضی نہیں شامل ہوتی،ان شادیوں کو کروانے کے لیے جسمانی اور جذباتی تشدد کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ان کیسز میں بچیوں کو سکول سے اٹھا کر گھر کی خادمہ بنا دیا جاتا ہے۔
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ1929کے مطابق 16سال ے کم عمر کی بچی کی شادی میں ملوث افراد پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور ایک مہینے کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے تاہم اس قانون کو لاگو کرنے میں کمزوری دیکھائی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر ایسی شادیاں راز داری میں کی جاتی ہیں اور ان کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔کم عمری کی شادی اور زبر دستی کی شادی کے نقصانات کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداریوں کو اس عمل کو روکنے کے لیے اور بھی زیادہ فعال ہونا پڑے گا۔
پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک بہت پیچیدہ اور بہت سے مسائل سے جڑا مسئلہ ہے جس کے چھوٹی بچیوں کی صحت اور عمومی زندگی پر دور رس مضمرات ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں رکوانے کے لیے بنائے گئے قوانین کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے،اس بات کی بے حد ضرورت ہے کہ عوام میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہی کو بڑھایا جائے۔مزید برآں چھوٹی عمر کی شادیاں رکوانے کے لیے قانونی اداروں کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔مختصراً نا بالغ بچیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں حکومت،سول سو سائٹی اور کمیونٹی کی جانب سے مشترکہ کوشش کی جائے تاکہ ان بچیوں کوایک محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔