بہت سے لوگوں کے لیے مروجہ پاکستانی رشتہ کلچر انتہائی پریشان کن ہے،جوں جوں یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے ہمارے معاشرے میں اس کی جڑیں پھیلتی جا رہی ہیں۔جیسے ہی کوئی لڑکی بالغ ہو تی ہے تو تمام والدین کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ہمارے معاشرہ جس میں روائتی طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں اور جدید طریقہ کار جیسے میٹریمونئیل سوشل ایپس کے استعمال کو ترجیح نہیں دی جاتی وہاں ایک مناسب رشتہ ڈھونڈنا ایک بہت اہم مسئلہ بن جاتا ہے۔
”ٹاک“ نے ایک پروفیشنل میچ میکر مسز شائستہ عمران جو بیس سال سے کامیاب رشتے کروا رہی ہیں،اس کے علاوہ میرج کونسلنگ بھی کرتی ہیں،ان سے رشتوں کے مسائل کے بارے میں بات کی جو آپکی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
مسز عمران سب سے پہلے یہ بتائیں کہ رشتے کے بارے میں ڈیمانڈز کیا ہر سوشل کلاس میں مختلف ہے اور آپ اس مسئلے سے کس طرح نبٹتی ہیں؟
جی رشتے کے بارے میں ڈیمانڈز تقریباً ہر طبقے میں ایک جیسی ہیں۔جہاں لڑکے والوں کو ایک بہت خوبصورت،تعلیم یافتہ اور ہر لحاظ سے بہترین لڑکی چاہیے ہوتی ہے اسی طرح لڑکی والوں کو بھی ایک تعلیم یافتہ،ویل سیٹیلڈ اور ہینڈسم لڑکا چاہیے ہوتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان میں سب خوبیاں ڈھونڈنا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے،اور یہاں ہم دونوں سائڈ کی کونسلنگ بھی کرتے ہیں تاکہ رشتوں کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔
کیا رشتہ ڈھونڈنے کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدلی ہے؟اور آپ لوگوں کی سوچ کس طرح بدلتی ہیں؟
لوگوں کو بات سمجھانا بہت مشکل ہے خاص طور پر لڑکے کی ماں کو سمجھانا تقریباً ناممکن ہے۔وہ صرف لڑکی کی تصویر دیکھ کر رشتے کا انکار کر دیتی ہیں جبکہ ہم ان کو سمجھاتے ہیں کہ صرف تصویر دیکھ کر کسی انسان کے بارے میں جاننا نا ممکن ہے آپ کو لڑ کی کو خود جا کر دیکھنا چاہیے،تب ہی آپ کو اس کے گھر اور گھر والوں کے ساتھ ان کا بیک گراؤنڈ اور شاید کچھ اور اچھی باتوں کا معلوم ہو سکے گا،آپ صرف تصویر دیکھ کر کسی رشتے سے انکار نہیں کر سکتے۔
ایک مناسب رشتہ ڈھونڈنے میں کیا باتیں مسائل پیدا کرتی ہیں؟
میرا طریقہ کار یہ ہے کہ میں شادی کرنے کے لیے ضروری سمجھتی ہوں کہ نہ صرف والدین ایک دوسرے سے ملیں بلکہ لڑکا لڑکی کو خود بھی ملنا چاہیے تاکہ ان کو ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہو سکے کیونکہ بعض اوقات والدین لڑکے کی مرضی کے خلاف بھی شادی کر رہے ہوتے ہیں جس کے نتائج آخر میں لڑکی کو بھگتنے پڑتے ہیں۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ والدین اپنے بیٹے کی مرضی کے خلاف میچ میکر سے رجوع کر لیتے ہیں۔ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جب ایک لڑکا کسی لڑکی کو پسند نہیں کرتا تو لڑکے کے گھر والے لڑکی کے بیک گراؤنڈ اور تعلیم پر سوال اٹھانے لگتے ہیں،وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ لڑکی یا لڑکا جہاں کام کرتے ہیں وہاں ان کی معلومات لینے پہنچ جاتے ہیں اور دونوں طرف سے ایسے عجیب و غریب رویے کی امید کی جا رہی ہوتی ہے جبکہ رشتہ ڈھونڈنتے وقت اخلاقیات کو ضرور مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی ایک ایسا ساتھی چاہ رہی ہوتی ہے جس کا خاندان یا والدین نہ ہو،آپ اس طرح کے کیس میں کیا رویہ اپناتی ہیں؟
دیکھیں دونوں طرف کے خاندان اہم ہوتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ آج کی لڑکیوں میں صبر کم ہے اور شاید دونوں طرف ہی ایسے حالات ہیں اور ایسے میں بعض لڑکیوں کے والدین اس بارے میں بہت فکر مند ہوتے ہیں شادی کے بعد ہماری بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا اور اسی لیے وہ چاہ رہے ہوتے ہیں لڑکے کا خاندان بڑا نہ ہو اور اکثر یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ والدین بھی نہ ہوں کیونکہ ان کی بیٹی”لاڈلی“ ہے اور وہ نئے خاندان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں مشکل محسوس کرتی ہے۔۔میرے ساتھ یہ کئی دفعہ ہو چکاہے کہ بعض بظاہر پڑھی لکھی فیملی کے لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا لڑکا چاہیے جس کے والدین نہ ہوں۔کیونکہ میں فیملی کو نسلر بھی ہوں تو میں یہ بات ان لوگوں کو سمجھاتی ہوں کہ آپ کی بیٹی کو والدین کے ساتھ ایڈجسٹ کرناتو آنا ہی چاہیے کیونکہ یہ درست رویہ نہیں ہے۔
آج کے دور میں ہر کسی کے پاس موبائل ہے اور شادی کے بعد لڑکیاں گھر کی ہربات اپنے گھر والوں کو اورماں کو پہنچاتی ہیں ایسے حالات میں گھر میں جھگڑے بڑھتے ہیں اور اس کے نتائج دونوں طرف کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں کی کونسلنگ ضروری ہے تاکہ ان کی شادی بہتر طریقے سے چل سکے۔
جدید سوچ رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں اپنے لیے ساتھی ڈھوندنے میں کیا مشکلات کا سامنا کرتے ہیں،کیا وہ اپنے ہر لحاظ سے ”پرفیکٹ“ رشتہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟
جی ہر کسی کی اپنی سوچ ہے۔کچھ لڑکے لڑکیوں کی شکل وصورت کے بارے میں اتنے فکر مند نہیں ہوتے وہ اس کے بجائے ایک ایسی لڑکی چاہ رہے ہوتے ہیں جو نیچر کی اچھی ہو،اس کے علاوہ مل کر ایک دوسرے کو جاننے کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیاں بھی ایسا شوہر چاہتی ہیں جو قابل ہو اور اس کے والدین سے پیسوں کا مطالبہ نہ کرے اور اپنی بیوی کا بھی صحیح طرح خیال رکھے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ شادی کے بارے میں لوگوں کے خیالات بدلے ہیں؟
ہاں،میرا خیال ہے کہ میڈیا پر سسرال والوں خاص طور پر ساس کے کردار کو بہت بُرا کر کے دیکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ بہوؤں کو سازشیں کرتے ہوئے دیکھایا جاتا ہے جن کا مقصد اپنے شوہر کو بہکانا اور اس کو اس کے گھر والوں سے الگ کرنا ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ سب میڈیا پر نہیں دیکھایا جانا چاہیے۔
ٹرالی کلچر کے بارے میں آپ کیا کہیں گی کیا یہ ایک عورت کی تذلیل نہیں ہے؟
جی یقیناً میں اسے بہت بڑا مسئلہ سمجھتی ہوں کیونکہ اچھا نہیں لگتا کہ کچھ لوگ اسے خاص طور پر دیکھنے آئیں اور وہ ان کے لیے ٹرالی سجا کر لائے۔اس کے بجائے اگر لڑکی دیکھنے آپ بغیر بتائے جائیں تو میں لڑکیوں کو یہ سمجھاتی ہوں کہ آپ انھیں اسی طرح ڈیل کریں جس طرح آپ کے گھر میں کوئی مہمان آتا ہے اور آپ اور گھر کے دوسرے افراد اس کی خاطر مدارت کرتی ہیں اور اس بات کو اتنا دماغ پر نہیں لینا چاہیے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان میں رشتے طے کرنے کا بس ایک طریقہ کار ہے؟
ہمیں یقیناً بہتر آپشن دیکھنی چاہیے کیونکہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ لڑکی دیکھنے جاتے ہو اور آپ کو لڑکی نہیں دیکھائی جاتی اور اس طرح یہ لڑکے والوں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔
پاکستان میں لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد غیر شادی شدہ ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گی؟
میری یہ سوچ ہے کہ لڑکیوں کی شادی 26سال یا اس سے پہلے ہو جانی چاہیے یا کم از کم رشتہ ضرور طے ہو جائے کیونکہ بعد میں یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ انھیں کوئی غیر شادی شدہ لڑکا ملے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تیس سال سے پہلے لڑکوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور ان حالات میں 35سال یا اس سے زائد عمر کی لڑکیوں کو اپنے مطالبات کو کم کرنا پڑے گا کیونکہ اس سٹیج پر غیر شادی شدہ لڑکا ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔لڑکیاں ایک آئیڈیل ڈھونڈنے کی کوششش میں اپنا بہت وقت ضائع کر دیتی ہیں اور اسی لیے انھیں بعد میں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔