پاکستانی معاشرے میں شادی کو ایک مقدس اور سماجی فریضہ سمجھا جاتا ہے، جو صرف دو افراد کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ پورے خاندان کی عزت و روایات سے جڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ ارینج میرج یعنی خاندان کی رضامندی سے شادی ایک معمول کی بات ہے، لیکن جب شادی ایک فریق کی مرضی کے بغیر کی جائے، تو وہ “جبری شادی” کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو خاص طور پر خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو متاثر کرتی ہے۔
جبری شادی وہ شادی ہے جس میں کسی ایک یا دونوں افراد کو زبردستی، دھمکی، یا دباؤ کے تحت شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس میں جذباتی بلیک میلنگ، جسمانی تشدد، یا سماجی دباؤ کا استعمال شامل ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے کئی کیسز دیکھنے میں آتے ہیں جہاں لڑکیوں کو ان کی مرضی کے بغیر رشتہ قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات تو انہیں تعلیم یا کیریئر سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
اس مسئلے کی جڑیں گہری سماجی و ثقافتی وجوہات میں پیوست ہیں۔ سب سے بڑی وجہ خاندانی عزت کا تصور ہے، جس کے تحت والدین یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے فیصلے صرف ان کا حق ہے اور بچے کی رائے غیر ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، غربت، جہیز کے مسائل، رسم و رواج جیسے ونی اور سوارہ، اور کم عمری کی شادیاں بھی اس مسئلے کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے، جہاں لڑکیوں کو جھگڑوں کے بدلے میں صلح کی قیمت کے طور پر شادی میں دے دیا جاتا ہے۔
جبری شادی کے اثرات صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی متاثر کن ہوتے ہیں۔ ایسی شادیاں اکثر ناخوشگوار زندگی، گھریلو تشدد، ڈپریشن، اور خودکشی جیسے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ متاثرہ افراد اپنی زندگی پر اختیار کھو دیتے ہیں اور ان کا خواب، کیریئر، اور خودمختاری سب برباد ہو جاتے ہیں۔ کم عمر لڑکیوں کے لیے یہ حالات اور بھی خطرناک ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ماں بننے کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں۔
اگرچہ پاکستان میں جبری شادی کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کمزور ہے۔ بہت سے لوگ ان قوانین سے ناواقف ہیں، اور بعض علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی مقامی رسم و رواج کے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، نکاح کے وقت لڑکی کی رضامندی کا فارم رسمی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے۔اس مسئلے کا حل صرف قانون سازی نہیں بلکہ سماجی رویوں میں تبدیلی ہے۔ عوامی آگاہی مہمات، تعلیم کی فراہمی، خواتین کی خود مختاری کا فروغ، اور میڈیا کا مثبت کردار اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں رضامندی، انسانی حقوق، اور جنسی تعلیم جیسے موضوعات پر گفتگو ہونی چاہیے تاکہ نوجوان نسل باشعور ہو۔مختصراً ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی صرف ایک رسم نہیں بلکہ دو انسانوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے، جس میں دونوں کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ جبری شادی نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ ایک نسل کی ترقی اور آزادی کو داؤ پر لگانا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتوں کی بجائے انسانوں کی قدر کریں اور ہر فرد کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیں۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔