پاکستانی معاشرے میں با شعور طبقہ ہمیشہ سے خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بات کرتا آیا ہے اور معاشرتی اور قانونی سطح پر اس کے لیے بہت سی کوشش بھی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود آئے دن خواتین پر تشدد کے کیسیز سامنے آتے رہتے ہیں جو اس تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔اگرچہ نور مخدوم جیسے کیسز نے عوام کو کا فی شعور دیا لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عائشہ جہانزیب جیسی پڑھی لکھی با شعور ٹی وی ہوسٹ کا کیس ہمارے سامنے آجاتا ہے اور پوری دنیا ان تصاویر کو دیکھ کر ششدہ رہ جاتی ہے کہ یہاں ایک با شعور طبقے کی عورت کے ساتھ یہ کچھ ہو رہا ہے تو باقی عورتوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا،جو یہ سب کچھ برداشت کرتی رہتی ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
ابھی یہ سب خبریں چل ہی رہی تھیں کہ ثانیہ زہرا کے ظالمانہ قتل نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔20 سالہ ثانیہ دو بچوں کی ماں تھی جس کی شادی ایسے شخص سے ہوئی جس کے بارے میں اسے یہ بھی معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔اس سب کے باوجود وہ اس کے ساتھ گزارا کرتی رہی یہاں تک کہ اس کے خود دو بیٹے ہو گئے اور تیسرے بچے سے پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔لیکن اس کے شوہر نے اس کو بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کیا اور خود کشی کا ڈرامہ رچا دیا اور اس کے گھر والوں کو بلا کر کہا کہ اس کی لاش لے جائو۔بعد میں ثانیہ کے کمرے کی تلاشی لی تو تشدد کے آلات ملے جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے کیونکہ اس کا شوہر چاہتا تھا کہ ثانیہ اپنا گھر اس کے نام کر دے اور اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس نے ثانیہ کو قتل کر دیا۔
عائشہ جہانزیب پر تشدد کے واقعہ کی وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا لیکن ثانیہ جیسی عورتوں کے لیے کون آواز اٹھائے گا اور کون ان کے لیے قانونی کوشش کرنے کے علاوہ شعور دے گا کہ وہ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر غلط باتوں اور رویوں کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
ماہر نفسیات کچھ ایسی باتوں کے بارے میں رہنمائی کرتے ہیں کہ خواتین کس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
ماہرِ نفسیات کے مطابق کسی بھی انسان سے رشتہ بنانے سے پہلے خواتین کو اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ کوئی انسان پرتشدد ذہنیت کا حامل تو نہیں ہے ۔ہمارے ہاں اکثر عورتوں کی شادیاں ایسے مردوں سے اس لیے کر دی جاتی ہیں کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائیں گے یا ان کے۔رویے میں بہتری آجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ آپ کو ہمیشہ کسی سے بھی رشتہ جوڑنے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل طور پر معلومات حاصل کرنی چاہییں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ کوئی شخص ماضی میں کسی قسم کے ظلم یا تشدد جیسے واقعات میں ملوث رہا ہے تو کبھی ایسے شخص کا انتخاب مت کریں۔جب ایک دفعہ کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا ہے تو ایسا بار بار ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی عادت میں شامل ہوتا ہے۔نشے کا استعمال کرنے والے شخص میں بھی پر تشدد رویہ پایا جاتا ہے اس کے علاوہ بد تہذیب اور بد تمیز شخص بھی ہاتھ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا۔اس کے علاوہ اس بات کا بھی دھیان کریں کہ وہ شخص زیادہ خود پسند نہ ہو کیونکہ ایسا شخص بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ غلط رویہ اپنانے میں دیر نہیں لگاتا۔
جب آپ کسی ایسی صورتحال میں گِھرے ہوں جہاں بات تشدد تک پہنچ سکتی ہے یا پہنچ جائے تو فوری طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں اور اپنے لیے کوئی محفوظ مقام ڈھونڈیں۔جب بھی کسی خاتون پر کوئی مرد تشدد کرے تو اس ظلم کو چھپائِیں مت، بلکہ اپنے گھر والوں یا دوست یا رشتےداروں میں کسی کو فوری بتائیں۔‘خاتون کو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دینی چاہیے کیونکہ ریاست اُن کی مدد ہر صورت کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں خواتین ڈرتی ہیں اور ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے حقوق کے بارے علم نہیں ہوتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔