نومبر کو دنیا بھر میں ’انٹر نیشنل مینز ڈے‘ یعنی کہ مردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز سال 1999سے کیا گیا، اس دن کو منانے کا مقصد مردوں کی صحت پرفوکس کرنا اور صنفی تعلقات بہتر بنانا ہے۔آج دنیا بھر میں مردوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن مرد ہی بے خبر ہے کہ آج اس کے لیے بھی کوئی دن مقرر ہے، مرد عموماً کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتے، وہ بس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے چلے جاتے ہیں۔مرد ایک گھر میں باپ، بھائی اور شوہر کا کردار ادا کرتا ہے اور ان سے متعلق مسائل کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے، معاشرے میں مردوں سے منسلک کئی ایسے تصورات پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں اکثر بات نہیں کی جاتی۔
مرد کے حوالے سے یہی تاثر ہوتا ہے کہ وہ سخت جان ہے، حالات اور مصائب کا بآسانی مقابلہ کر سکتا ہے، اس کو ہمدردی کی ضرورت نہیں، وہ سربراہ ہے اور محافظ ہے اس لیے اس کو عموماً وہ توجہ بھی نہیں مل پاتی جس کا وہ حق دار ہے۔مرد کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے کیونکہ وہ باہر کی دنیا سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنوں کو ہر طرح کے دکھ درد سے بچاتا ہے اور خود کو مضبوط ظاہر کرتا ہے تاکہ اس کے پیاروں کو ذرا سا بھی دکھ نہ ملے۔
مرد کا سب سے اہم کردار والد کا کردار ہے جس میں مرد بطور والد اپنے بچوں کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں پرانے وقتوں کے مقابلے باپ کے کردار میں بھی تبدیلی آئی ہے، باپ کا کردار اب روایتی دقیانوسی تصورات تک محدود نہیں رہا، والد کی پروفیشنل شعبے میں کام کرنے سے لے کر گھر کے اندر بچوں کی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر مرد پارک میں بچے کے ساتھ کھیل رہا ہے یا گھر میں بچے کے کپڑے تبدیل کر رہا ہے تو اکثر لوگ اسے معیوب تصور کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مرد اگر بطور شوہر بیوی کی مدد کرنے کے لیے گھر کے کام میں ہاتھ بٹائے تب بھی کچھ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں، لیکن آج کے جدید دور میں یہ سوچ آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔آج کے دور میں اگر عورت معاشی لحاظ سے ہاتھ بٹا رہی ہے تو ایک سمجھدار کامیاب مرد بھی گھریلو کاموں میں مدد کرنے کو عار نہیں سمجھتے۔
مردوں کے اس عالمی دن پر یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ایسے مسائل کو اجاگر کیا جائے جن کا سامنا آدمی کر رہے ہیں۔ عورت کے مسائل کا مردوں کے مسائل سے موازنہ کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ ہر جنس دوسرے سے مختلف ہے اور ان کی مسائل بھی مختلف ہوتے ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد حضرات کی ضروریات اور ان کے احساسات کا خیال کریں اور ان سے بات چیت کر کے انہیں قائل کریں کہ بحیثیت مرد ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات چھپائے رکھیں، حالات کا جبر تنہا جھیلتے رہیں، انہیں قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی پریشانیاں اپنوں کے ساتھ شیئر کریں اور ان کے اہل خانہ ان کو ان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے میں بھرپور مدد کریں تاکہ وہ اپنے معاشرتی کردار احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔