وراثت میں حق کسی بھی معاشرے میں بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔اگرچہ جائیداد پر عورتوں کے حق کی مذہب اور قانون دونوں حمایت کرتے ہیں اور عورتوں کو وراثتی حق کی ادائیگی کو فرض قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ممالک میں عورت کو اس حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔پاکستان کا شمار بھی ان ہی معاشروں میں ہوتا ہے جہاں عورت کو اپنا حق حاصل کرنے میں بہت سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
:پاکستانی عورت اور حق وراثت کے موجودہ حالات
پاکستان میں عورت کے وراثت کے حق کا بہت عرصے تک انکار کیا جاتا رہاجبکہ قانون میں بہت سی ترامیم بھی کی گئیں تاکہ عورت کو اس کا جائز حق دلوایا جا سکے۔یہ الگ بات ہے کہ ان قوانین کو پوری طرح لاگو نہیں کیا جا سکااور بہت سی عورتیں ابھی تک اپنے وراثتی حق کے حصول کو نا ممکن سمجھتی ہیں۔پاکستان میں پدرانہ ماحول اپنے عروج پر ہے،ایسا ماحو ل جہاں جائیداد میں حق ہونے کے باوجود عورت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے جائیدادیا وراثتی حق کو اپنی خوشی سے اپنے مرد رشتے داروں کے نام کر دے اور جب وہ ایسا کر دیتی ہے تو اس کا اپنے لیے کسی بھی قسم کی کوشش بے کار رہتی ہے اور وہ بے حد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اپنے حقوق سے لا علم ہونے کی وجہ سے خواتین اپنے وراثتی حق سے محروم رہتی ہیں حتیٰ کہ اگر وہ باشعور ہوں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں تب بھی انھیں طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان اور کمیونٹی سے کسی بھی قسم کے حق کا دعویٰ نہ کریں اور اپنی”حدود“ میں رہیں۔
پاکستان میں ایسی خواتین جو اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں وہ شدید مخالفت کا سامنا کرتی ہیں۔یہ مخالفت ان کے شوہر اور ان کے گھر والے اور بھائیوں کی جانب سے بھی ہو سکتی ہے۔پاکستان میں کچھ ادارے عورتوں کے حق کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ ان کا حق دلوانے میں مدد کرتے ہیں اگر عورتوں کو مزید اس بارے میں آگاہی دی جائے اور انھیں مدد فراہم کی جائے تو امید کی جاتی ہے کہ سب عورتیں اپنا حق حاصل کر پائیں گی۔
سب سے پہلے یہ قدم اٹھایا جائے کہ قوانین میں اس طرح ترامیم کی جائیں کہ عورت کا اپنا حق حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔مزید یہ کہ عوامی سطح پر شعور اجاگر کیا جائے،مناسب تعلیم کے ذریعے لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جائے،انھیں عورت کے وراثتی حق کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے اور اس کے لیے مناسب ماحول بنایا جائے تب ہی پاکستانی عورت اپنا جائز حق حاصل کر کے معاشرے میں اپنا مقام بنا پائے گی۔
عورتیں جب تک اپنا جائز حق حاصل نہیں کریں گی تب تک وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتیں اور نہ ہی وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان سکتی ہیں۔معاشی خوشحالی کے حصول کے لیے انہیں کسی بھی ایسے شخص سے شادی کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے جس میں ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور نتیجتاً وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتیں۔وہ ساری عمر بنیادی ضروریات کے لیے ترستی رہتی ہیں اور دوسروں کے رحم و کرم پر رہتی ہیں جو ان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی بھی اجازت نہیں دیتے اور اس طرح عورت کی اپنی ذات اور زندگی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
پورے معاشرے میں انصاف اور امن و سکون تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب عورت جو آدھے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے اسے اس کا جائز حق دیا جائے۔جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی تو دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہو گی اس طرح معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ بنے گا۔
پاکستان میں عورت کی حالت بدلنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
پاکستان میں عورت کو اس کا جائز حق دلوانے کے لیے کئی اقدامات کرنا پڑیں گے۔سب سے پہلے قوانین بنائے جائیں اور جو قوانین بنے ہوئے ہیں ان میں مناسب ترامیم کی جائیں۔دوسری بات یہ ہے کہ جج صاحبان کی بھی مناسب ٹریننگ کی جائے تاکہ وہ ہر عورت کو اس کا حق دلوا سکیں اور تیسرا معاشرتی رویہ بدلا جائے تاکہ لوگوں کو باور کروایا جائے کہ عورتوں کا وہ ہی حق ہے جو مرد حضرات کا ہے اور وہ کوئی دوسرے درجے کی شہری نہیں بلکہ وہ تمام حقوق رکھتی ہیں جو مرد رکھتے ہیں۔
خواتین بہت عرصے سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں لیکن معاشی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے کمزور رہتی ہیں اور اپنے حقوق حاصل نہیں کر پاتیں۔قانون انھیں ہر شے میں برابر کا حقدار تسلیم کرتا ہے لیکن معاشرتی دباؤ کی وجہ سے وہ آدھے کی بھی حقدار نہیں ٹھہرتیں۔گو رنمنٹ کو زیادہ سے زیادہ ایسے اقدامات کرنے چاہیں جن کے ذریعے عورتوں کو اپنا حق حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایسے قوانین پاس کروائے جائیں جو اس طرح کا ماحول فراہم کریں جو عورت کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرے۔جج اپنی بہترین ٹریننگ کی روشنی میں انصاف مبنی فیصلے سنائیں اور سب سے اہم معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے کے بجائے عورت کو ایک مکمل انسان اور اول درجے کا شہری سمجھا جائے۔ان تمام معاملات کو ٹھیک کر کے ہی عورت کو اس کا جائز حق دلوا کر مناسب معاشرہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں عورتوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے جہاں ان کو ان کے باپ اور شوہر کی جائیداد اور وراثت سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور سونے پر سہاگہ قوانین کے لاگو کرنے کی کمزور ی ہے جس کی وجہ سے عورت اپنے حق کے لیے اٹھے بھی تو اسے انصاف نہیں ملتا۔بہت سے اقدامات کیے بھی گئے ہیں لیکن وہ کافی نہیں اس لیے بہت ضروری ہے کہ مزید اقدامات کیے جائیں ساتھ میں لوگوں کو بھی شعور دیا جائے تاکہ انصاف تک رسائی ممکن ہو سکے اور بے انصافی کا شکار ہو کر معاشرہ غیر متوازن نہ ہو جائے۔جب سب کو برابر کا حق ملے گا تب ہی معاشرہ ترقی کرے گا۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔