پاکستان میں شادی ایک مقدس رشتہ مانا جاتا ہے جو دو لوگوں کو زندگی بھر کے لیے ایک کر دیتا ہے۔اگر ان دونوں میں سے ایک فرد طلاق یافتہ ہو تو پھر اس شادی کا کیا ہوگا؟ایسا ہونا دنیا بھر میں شاید اتنی انوکھی بات نہ ہو جتنا بڑا یہ مسئلہ پاکستان میں ہے۔معاشرتی اور مذہبی اقدار میں اختلاف کی وجہ سے ایسی شادی ایک تنازعہ بن جاتی ہے۔اس بلاگ میں ہم ان تمام مسائل کاذکر کریں گے جن کا سامنا ایک طلاق یافتہ عورت کو کرنا پڑتا ہے اور ان مسائل کو ختم کرنے میں معاشرہ اور مذہبی ادارے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
:پاکستانی معاشرے اور مذہبی تعلیمات میں اختلافات
پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی اقدار میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔پاکستان میں خواتین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سوشل کلاس اور مذہب کے اندر رہ کر شادی کریں۔یہ تمام توقعات عورت کے لیے شادی کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیتی ہیں کیونکہ اب اسے ”استعمال شدہ یا ٹوٹے سامان“ کے طور پر لیا جاتا ہے۔پاکستان میں عورت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک خاص کردار ہی معاشرے میں ادا کرے۔اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آنکھ بند کر کے اپنے شوہر کی تا بعداری کرے اور اپنے لیے کسی بھی قسم کی کوشش نہ کرے،وہ کوشش آگے تعلیم کے لیے ہو یا اس کاپروفیشن ہو،امید کی جاتی ہے کہ عورت اپنی ذات کے لیے مت سوچے تب ہی وہ ایک مثالی عورت بنے گی۔
یہ اختلافات کیسے ایک طلاق یافتہ پر اثرانداز ہوتے ہیں؟
پاکستانی معاشرے میں بہت سے معاشرتی اور مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں جو ایک طلاق یافتہ کے لیے مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی طلاق یافتہ سے شادی ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں طلاق کو زندگی کی ناکامی سمجھی جاتی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری عورت پر ڈالی جاتی ہے۔ایک طلاق یافتہ عورت کو ہتک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے لیے دوسرا شریک حیات ڈھونڈنا بہت مشکل کام تصور کیا جاتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق یافتہ سے شادی کے لیے تیار ہو بھی جائے تواسے معاشرے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔
:ایک طلاق یافتہ سے شادی کرنے کے فائدے اور نقصان
پاکستان میں ایک طلاق یافتہ سے شادی کرنے کے کچھ فوائد بھی ہیں اور کچھ نقصانات بھی ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک طلاق یافتہ عورت کو عام طور پر ایک خیر شادی شدہ عورت کے مقابلے میں بہت زیادہ سمجھدار اور تجربہ کار سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ زندگی کی اونچ نیچ دیکھ چکی ہوتی ہے۔وہ زیادہ خود مختار ہوتی ہے اور اس بات کو سمجھتی ہے کہ شادی کو کس طرح کامیاب بنانا ہے۔زندگی کے مسائل سے لڑنے کی اس میں زیادہ قابلیت ہوتی ہے۔تاہم ایک طلاق یافتہ سے شادی کے کچھ نقصانات بھی ہیں کچھ کیسز میں اپنے بُرے تجربے کے باعث طلاق یافتہ عورت دوبارہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہے،اس کے لیے دوبارہ کسی آدمی پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اور اگر وہ راضی ہو بھی جائے تو شادی کرنے والے کو ان تمام مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے جو خاندان اور معاشرے کی مخالفت کی صورت میں اسے جھیلنا پڑتے ہیں۔
پاکستان میں ایک طلاق یافتہ سے شادی ایک انوکھی بات سمجھی جاتی ہے۔ قانونی مضمرات کے علاوہ معاشرتی اور مذہبی اختلافات بہت اہم ہیں۔پاکستان میں طلاق یافتہ سے شادی کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اسے خاندان کی بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔لوگوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ضرور اس عورت نے کچھ ایسا کیا ہو گا جس کی اسے سزا ملی ہے۔اس لیے اگر پاکستان میں آپ کسی طلاق یافتہ سے شادی کا سوچ رہے ہیں تو یہ بات بھی سمجھ لیں کہ آپکو اپنے خاندان اور معاشرے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مختصراً طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے معاشرتی اور مذہبی اختلافات ہیں اور ان کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔پاکستان میں وہ شادی کامیاب نہیں ہوتی جس کو خاندان اور معاشرے کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہو۔یہ دیکھنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جس سے شادی کر رہے ہیں ان کے خاندان کے نظریات کیا ہیں،مذہب کیا ہے، وہ کس کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اور کن روایات پر عمل کرتے ہیں۔شادی سے پہلے ان با ریکیوں کو سمجھنا اور ان کا شادی کی کامیابی میں کردار کو سمجھنا پڑے گا۔جس شادی میں جس قدر ہم آہنگی پائی جائے گی وہ شادی اتنی ہی کامیاب ہو گی۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔