گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ہمارے کلچر میں طلاق کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن کچھ عرصے سے کچھ ایسی معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں برداشت کم ہوتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ طلاق کی بڑھتی شرح ہے،ان سب حالات کے خاندانی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی پر بھی بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں شادی کا تقدس
شادی کی پاکستانی کلچر میں بہت اہمیت ہے۔یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب لڑکا اور لڑکی دونوں کے خاندان اسے بھر پور طریقے سے مناتے ہیں۔شادی کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں بندھنے والے ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔لیکن طلاق کو شادی کی ناکامی بلکہ بعض حالات میں جوڑے کی ناکامی تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے طلاق کی شرح اتنی تیز رفتاری سے بڑھی ہے کہ اب یہ ایک غور طلب بات ہو گئی ہے۔ہر دوسری ہونے والی شادی کا انجام طلاق یا خلع ہی نظر آتا ہے۔طلاق دو لوگوں کا مسئلہ نہیں ہوتی بلکہ یہ پیدا ہونے والے بچو ں کے علاوہ دو خاندانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔
طلاق کی بڑھتی شرح کی وجو ہات
طلاق کی بڑھتی شرح کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ پاکستان میں خواتین کوبرابر کے حقوق نہ ملنا ہے کیونکہ اس سے گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔دوسری وجہ جوڑوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا ہے۔جب روائتی طریقے سے شادیاں ہوتی ہیں تو دونوں طرف سے ذہنی ہم آہنگی کے پہلو کو نہیں دیکھا جاتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جوڑوں کے بیچ اختلافات بڑھتے جاتے ہیں جس کاحل آخر کار طلاق یا خلع میں ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔اسی طرح مالی مشکلات اور گھریلو تشدد بھی طلاق کی بڑھتی شرح کی اہم وجوہات ہیں۔
سدباب
طلاق کے بڑھتے رجحان کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے مندرجہ بالا وجوہات کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔خواتین کو برابر کے حقوق دئیے جائیں تاکہ ان کا اپنی زندگی پر زیادہ اختیار ہو اور زبر دستی کی شادی یا پسند کا شامل نہ ہونے جیسے مسائل کو ختم کیا جا سکے۔خواتین کو با ختیار بنانے سے معاشی معاملات بھی بہتر ہوں گے جو طلاق یا خلع کی اہم وجہ ہے۔مزید برآں اگر جوڑوں کو شادی کا رشتہ نبھانے کے بارے میں تعلیم دی جائے تو طلاق کی شرح جس تیزی سے اوپر جا رہی ہے اسے روکا جا سکتا ہے۔
طلاق کی بڑھتی شرح کو روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حکومت مشکل حالات سے گزرنے والے خاندانوں کی مدد کر ے۔اگر ان جوڑوں کی مالی مدد کی جائے تو ان کی مالی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں اسی طرح تھراپی سیشن یا مناسب تعلیم و تربیت کے ذریعے لوگوں کو طلاق کے مضمرات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔دوسرا قدم مذہبی شخصیات کو اٹھانا پڑے گا،انھیں شادی اور خاندانی نظام کی حمایت میں آگے آنا پڑے گا۔مشکلات کا شکار جوڑوں کو رشتہ ختم کرنے کے بجائے مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا چاہیے اور جو خاندان طلاق یا خلع کے مسائل سے لڑ رہے ہیں ان کی مناسب آگاہی اور مددکی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ از حد ضروری ہے کہ ہم ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں ایسا ماحول ہو جو خاندانی نظام کو مضبوط کرے اور طلاق کی شرح کو کم سے کم کیا جا سکے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔