شادی ایک فرد کی زندگی کا اہم ترین موقع ہوتا ہے لیکن اگر معاشرتی توقعات کی بات کی جائے تو ان پر پورا اترنا بے حد مشکل ہے۔شادی زندگی کا ایک خوشگوار واقعہ بننے کے بجائے ایک مسئلہ بن جاتی ہے جہاں زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے بجائے صرف روایات کے پیچھے بھاگا جاتا ہے۔اُمید کی جاتی ہے کہ جس سے شادی ہو اس میں ہر خوبی پائی جائے لیکن تب ایک فرد کیا کرے جب وہ شادی نہیں کرنا چاہ رہا ہوتااور اس کے لیے روائتی طریقی نہیں اپنانا چاہ رہا ہوتا۔آئیے معلوم کرتے ہیں کہ یہ بلاوجہ کی اُمیدیں ایک فرد کی زندگی کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔
:روایات سے جُڑے رہنے کا معاشرتی دباؤ
مشرقی معاشروں میں کسی بھی فرد پر شدید دباؤ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں جاری روایات سے جُڑا رہے اور اس فرد سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس نے ایک خاص عمر میں شادی کرنی ہی ہے اور بچے پیدا کرنے ہی ہیں اور جس کردار کی اس سے امید کی جا رہی ہے وہ اسے ادا کرنا ہی ہے۔یہ دباؤ خاندان کے افراد،دوستوں حتیٰ کہ انجان لوگوں کی جانب سے بھی ہوتا ہے۔خاص طو پر خواتین کے لیے یہ دباؤ ضرورت سے زیادہ ہے۔اگر انکی عمر پچیس سال سے زیادہ ہو جائے اور ان کی شادی نہ ہو تو ان کو احساس دلوایا جاتا ہے کہ وہ ناکام ہے اور ان کے ساتھ کچھ غلط ہے جس کی وجہ سے ان کی شادی نہیں ہو رہی۔اسی طرح کسی خاص نسل اور رنگ و ذات کے آدمی سے شادی کرنے کا دباؤ ان پر ہوتا ہے۔
آدمیوں پر اسی طرح کے معاشرتی دباؤ ہوتے ہیں جن پر ہر حال میں عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔آدمیوں سے امید کی جاتی ہے کہ حالات جو بھی ہوں ہر آدمی کو روائتی مضبوطی اور کامیابی کے فارمولے پر پورا ترنا ضروری ہے۔
ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں انھیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کی ذاتی خواہشات اورترجیحات سے مطابقت نہیں رکھتے اور نتیجتاً تمام تر کامیابیوں کے باوجود ایسے افراد زندگی بھر نا خوش اور بد اطمینانی کا شکار رہتے ہیں۔
:روایات کا پابند رہنے کا دباؤ
روائتی توقعات کے مطا بق عمل کرنے کا دباؤ معاشرے کی بنیادوں میں بیٹھ چکا ہے۔ان سب حالات کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلے ان معاشروں میں ثقافتی اقدار اور روایات بہت اہمیت رکھتی ہیں۔شادی معاشرے کا اہم ترین پہلو ہے جو اس معاشرے میں موجود روایات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔خواتین کے لیے حالات مزید بد تر ہو جاتے ہیں وہ اگر پچیس سال کی عمر تک شادی نہیں کرتیں تو وہ معاشرے کے لیے ایک غلط مثال بن جائیں گی مجبوراً انھیں ایسی شادی کو اپنانا پڑتا ہے جس میں ان کی مرضی نہیں ہوتی اور یہ سب کچھ صرف اس منفی ردعمل سے بچنے کے لیے ہوتا ہے جو غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں انھیں جھیلنا پڑے گا۔غلط فیصلے اور شادی صرف اس لیے کرنا کہ آپکی عمر زیادہ ہوتی جا رہی ہے ایسی شادیوں کا انجام طلاق ہی ہوتا ہے۔ایک ریسرچ کے مطابق
سال 2022کے پہلے سات مہینوں میں عدالت کی جانب سے 6,000طلاقوں کے کیسز کو نبٹایا گیا جبکہ 7,000طلاقیں التواء میں پڑی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں میں روز 100-150طلاق کے کیسز فائل کیے جا رہے ہیں
اس قسم کے دباؤ اپنے دور رس اثرات رکھتے ہیں۔جو فرد بھی صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شادی کرتا ہے اسے ڈپریشن،بے چینی اور اعتمادمیں کمی جیسے مسائل دیکھنے پڑتے ہیں۔ایسے افراد مشکلات میں ہوتے ہیں اور وہ ایسے رشتے کو ختم بھی نہیں کر سکتے کیونکہ معاشرے میں اسے بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اس قسم کی شادیاں افراد کو جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتی ہیں اس لیے ایسے ماحول جہاں نوجوان جلدی میں غلط فیصلے کر جاتے ہیں۔صحت مند،معاشرے کے لیے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کے فیصلے لینے کی ہمت رکھتا ہو وہ خود کو اور دوسروں کو خوش رکھ سکیں۔
اندھی تقلید سے کیسے نکلا جائے؟
ان سب حالات سے نکلنا ایک مشکل کام ہو سکتا ہے لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں۔کچھ تجاویز ہیں آپکی خدمت میں جو آپکو اپنی مرضی کی خوشحال زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
ایسے لوگوں سے تعلق رکھیں جو آپکو جیسے ہو جہاں ہو کی بنیاد پر قبول کریں۔ایسے تعلقات آپکو معاشرے کے دباؤ سے نکلنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اپنے خاندان سے اپنی خواہشات اور جذبات کے بارے میں کھل کر بات کریں۔اس طرح دو نسلوں کے درمیان پایا جانے والا فرق بات چیت کے ذریعے ختم ہو گا اور شادی جیسے مشکل موضوع پر کھل کر بات ہو سکے گی۔
اپنی شخصیت سنواریں اور ایسے مقاصد ور شوق اپنی زندگی میں اپنائیں جو آپکو اس دباؤ سے نکال سکیں۔
یاد رکھیں ہر کسی کی زندگی میں کامیابی اور ترقی کا ایک وقت مقرر ہے۔اپنے آپکو دوسروں سے ملانا بے وقوفی ہے اور جس کے نتیجے میں آپ ایسے فیصلے کر جاتے ہو جن کی ابھی ضرورت نہیں ہوتی۔
مشرقی معاشرے میں معاشرتی دباؤ سے نکلنے کے لیے صبرو تحمل اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔خود اعتمادی اور ابلاغی مہارت سے آپ معاشرتی روایات اور انفرادی زندگی میں توازن رکھنا سیکھ سکیں گے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔