ایک قدامت پسند معاشرے میں سنگل پیرنٹس کی مشکلات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں ایسے والدین کے ساتھ مددگار رویہ اپنانے کے بجائے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے مسائل کی وجہ سے معاشرے کے معیارات پرپورے نہیں اتر تے۔اکیلے ہو جانے کے علاوہ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ ایسے مسائل ہیں جو انھیں جذباتی اور جسمانی دونوں لحاظ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔وہ تمام حالات جن میں علیحدگی یا جدائی ہوتی ہے اور بعد کے حالات دونوں ہی کسی فرد کے لیے نا قابل بیان نقصان ہوتے ہیں جن کو صرف وہ ہی بیان کر سکتاہے جو ان سب حالات سے گزرا ہو۔ان تمام حالات میں والدین کے ساتھ بچے بھی برابر کے متاثر ہوتے ہیں۔زندگی ابتداء میں ہی ان کے لیے ایک نا خوشگوار واقعہ بن جاتی ہے۔آدمی عورت کی تفریق کے بغیر سنگل پیرنٹس کو اپنے راستے میں آنے والی تمام مشکلات کو حوصلے سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ایک روائتی معاشرے میں آپ پر پڑنے والی مشکلات لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں مدد کرنے کے بجائے وہ آپکو یہ بتانے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے اور یہ تمام مشورے ان کی اپنی سوچ کے گرد گھومتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں حالات پر لمبی لمبی باتیں کرنے اور رنگ برنگی آراء دینے کا رواج ہے یہ سوچے بغیر کہ اس مسئلے کا اصل حل کیا ہے۔جب ایک آدمی یا عورت اکیلے ہو جانے کے مشکل دور سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے اس کے بارے میں اور اس کے بچوں کے بارے میں صرف بیانات جاری کیے جاتے ہیں اور سارے مسائل کو وہ عورت یا مرد خود ہی جھیلتا ہے۔
زندگی کے اس دور میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ کوشش کرنا پڑتی ہے۔لوگوں کی باتوں کو جھیلنے سے لے کر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے اچھا ماحول بنانے کی جدو جہد میں سنگل پیرنٹس کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
:لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا
اگر سچ کہیں تو یہ حقیقت ہے کہ جب دوسرے پر مشکل پڑے تو ہم صرف باتیں کر سکتے ہیں جو فائدے کے بجائے نقصان کر رہی ہوتی ہیں۔اپنا شریک حیات کھو دینا اور اکیلے بچے پالنے کی ذمہ داری اٹھانا واقعی ایک مشکل بات ہے جس میں ایک فرد اپنی تمام مشکلات کے ساتھ اکیلا ہو جاتا ہے اور سوسائٹی کی طرف سے اسے باتیں سننے کو ملتی ہیں بلکہ یہاں تک سننے کو مل جاتا ہے کہ یہ ان کے گنا ہوں کا بدلہ ہے اور مدد کے بجائے صرف اٹھتی ہوئی انگلیاں نظر آتی ہیں۔
:ماں اور باپ دونوں کا کردار
سنگل پیرنٹس کواپنے بچوں کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالنا ہوتا ہے۔انھیں ایک عام ماں اور باپ سے بڑھ کر سوچنا پڑتا ہے تاکہ ان کے بچوں کو ماں یا باپ کی کمی محسوس نہ ہو۔
:خاندان اور معاشی مسائل دونوں کے لیے کوشش کرنا
بچوں کو اکیلے پالنے والے والدین کو اپنے خاندان کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے اور ان کے لیے کمانا بھی پڑتا ہے۔زندگی کی ان سے امیدیں دگنی ہو جاتی ہیں اور وہ کماتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں۔ان دونوں کاموں کا توازن قائم کرتے کرتے وہ خود اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور کئی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
:بچوں کے لیے بہترین ماحول بنانا
پاکستان میں والدین کے کے لیے سب سے اہم مسئلہ اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر ماحول مہیا کرنا ہے کیونکہ دو کردار ادا کرتے ہوئے بچے شدید متاثر ہوتے ہیں۔بچوں کو اکیلے پالا جائے یا مشترکہ خاندانی نظام میں اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اپنے اور اپنے بچوں کی مشکلات کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ خاندان اسے کس طرح دیکھ رہا ہے۔
:بچوں کی ضروریات سے باخبر ہونا
سنگل پیرنٹس کو عام والدین کی نسبت اپنے بچوں کی ضروریات سے زیاہ باخبر رہنا پڑتا ہے کیونکہ بچوں کو بھی پوری دنیا میں بس وہ ہی نظر آتے ہیں جن سے وہ اپنی ضروریات بیان کر سکیں۔
:زیادہ کھل کر بات کرنا
اپنی تمام تر مشکلات کے ساتھ سنگل پیرنٹ کو اپنے بچوں سے روائتی ماں باپ کی طرح نہیں بلکہ زیادہ کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسے مسائل پر بھی بات کرنی پڑتی ہے جو بچوں کی عمر کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں لیکنن حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ انھیں ہر قسم کے حالات سے آگاہ کیا جائے۔
:سنگل پیرنٹ کی خود مختاری ایک سوال
سنگل پیرنٹس صرف اپنے بچوں اور معاشرے کو دیکھتے ہیں اس سارے ماحول میں ان کی اپنی ذات اور خود مختاری پر سوال اٹھ جاتا ہے۔ان کی اپنی زندگی دور کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور آگے صرف بچے اور معاشرہ رہ جاتا ہے۔اگر ایک بیوہ یا طلاق یافتہ عورت جوائنٹ فیملی میں رہتی ہے تو اس کی مشکلات نا قابل بیان ہوتی ہیں۔اسے مسلسل صرف اپنے خاندان اور معاشرے کی امیدوں پر پورا اترنا ہوتا ہے۔یہ حالات سنگل پیرنٹس کو ذہنی باؤ کا شکار کر دیتے ہیں،وہ صرف دوسروں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
:نئی زندگی کا آغاز
طلاق یا بیوگی کے بعد کی زندگی کو ایک نئے انداز سے شروع کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ دوبارہ شادی کرنے کا سوچتے ہیں تو معاشرے کی باتیں اور ان کے بچوں کی ضروریات انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے راستے سے بھٹک کر اخلاقی طور پر غلط کر رہے ہیں۔یہ سب حالات صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو ان سب حالات سے گزرا ہو۔سنگل پیرنٹس کی مشکلات کو سمجھنے اور معاشرے کا اس میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔