پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کی حالت نہیں بدلی۔پاکستان میں اٹھارہ اعشاریہ 9 ملین لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے جبکہ 4اعشاریہ 6 ملین لڑکیوں کی شادی 15سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہےجس سے ظاہر ہوتا ہے کی ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی کی شادی بالغ ہونے سے پہلے کر دی جاتی ہے۔وہ عمر جو اس کے کھیلنے ،پڑھنے ،سیکھنے اور زندگی کو سمجھنے کی ہوتی ہے اس عمر میں اس پر گھر اور بچوں کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔جس عمر میں وہ خود بچی ہوتی ہے اس عمر میں وہ بچے پیداکر رہی ہوتی ہے۔
دل کا رشتہ نے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے کم عمری کی شادی کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔مہم کے دوران دل کا رشتہ کی ٹیم ماں بسیرا اولڈ ہوم گئی اور وہاں کی مائوں سے کم عمری کی شادیوں کے بارے میں بات کی ۔سب کی یہ رائے تھی کہ کم عمری کی شادیاں نہیں ہونی چاہیں،اس طرح کی شادیاں خواتین کو شدید متاثر کرتی ہیں۔
کم عمری کی شادی کے بارے میں اماں ناز کا کہنا تھا کہ”میری شادی اپنے سے کافی بڑے مرد سے ہوئی تھی اور میں اس وقت بہت کم عمر تھی۔اگر میں اس وقت بڑی ہوتی تو کبھی بھی ایسے شخص سے شادی نہیں کرتی لیکن نہ مجھے عقل تھی اتنی اور نہ ہی مجھے اس فیصلے کے خلاف جانے کی اجازت تھی جس نے میری ساری زندگی کو متاثر کیا”
اسی طرح رخسانہ بی بی کا کہنا تھا کہ”جب آپ شادی کریں تو کسی آدمی کی ظاہری حالت یا اس کی نو کری وغیرہ پر مت جائیں بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ آپ کی اہمیت کرتا ہے کہ نہیں اور وہ آپ کو کتنا سمجھتا ہے۔یہ سب باتیں آپکی پوری زندگی کے لیے بہت اہم ہیں”۔
کم عمری کی شادی کی صورت میں عورت کی زندگی شروع ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔وہ وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہے اور جب بچے بھی ساتھ نہیں دیتے تو معاشرے کے رحم و کرم پر آ جاتی ہے۔یہ بہت افسوس ناک ہے۔خواتین کا دن منانے کا مقصد تب ہی پورا ہو گا جب خواتین کے اصل مسائل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے گی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب لوگ ان مسائل کو سمجھیں گے اور اس کی شروعات اپنے گھر سے کریں گے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔