تاریخ کی مختصر ترین شادی کویتی عدالت میں ہوئی تھی، جب جج نے اس جوڑے کے نکاح کی کارروائی پوری کی، نکاح کے بعد یہ جوڑا عدالت سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ دلہن پھسل گئی۔اسی اثنا میں دولہا نے اپنی نئی نویلی دلہن کی مدد کرنے کے بجائے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے اسے بیوقوف کہہ دیا، جس پر دلہن نےدلہا کی نظر میں اپنی اہمیت دیکھتے ہوئے نکاح کے 3 منٹ کے اندر اندر اسی جج کے پاس جاکر طلاق کا مطالبہ کردیا۔نکاح پڑھوانے والے اسی جج نے دلہن کی درخواست پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ان کی شادی فوراً منسوخ کردی اور یوں یہ شادی ملک کی تاریخ کی مختصر ترین شادی بن گئی۔سوشل میڈیا پر یہ واقعہ گردش کرتے ہی صارفین دلہن کی حمایت میں سامنے آگئے اور کہا کہ اس نےشادی ختم کرنے کا درست فیصلہ کیا جو شخص شروع میں اس طرح کرتا ہے، تو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔
شادی ختم کرنے کا فیصلہ اکثر خاصا مشکل ہوتا ہے اور جوڑے اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے مہینوں اور کبھی کبھی کئی برس سوچ و بچار کرتے ہیں لیکن جب اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ لینے کا وقت آتا ہے تو اس بارے میں ایک واضح رجحان پایا جاتا ہے اور وہ رجحان خواتین کا طلاق لینے میں پہل کرنا ہے۔اس کی کیا وجوہات ہیں آئیے اس کے بارے میں جانتے ہیں۔
خواتین کی آمدن میں اضافہ
طلاق کی بڑھتی شرح کا خواتین کی آزادی سے گہرا تعلق ہے۔خواتین کے لیے شادی ختم کرنے سے پہلے معاشی خودمختاری ایک اہم عنصر ہے، چاہے وہ اکیلی ہوں یا ان کے ساتھ بچے بھی ہوں۔ گر ان کے پاس خود پیسے کمانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو خواتین کے لیے شادی ختم کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب خواتین خود کمانا شروع کر دیتی ہیں توان کی معاشرتی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اورشادی شدہ زندگی میں مسائل شروع ہونے لگتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں خواتین کا کام کرنا انھیں ناخوش شادیوں سے نکلنے میں مدد کرتا ہے اور وہ معاشی طور پر پرتشدد بندھنوں میں رہنے کی پابند نہیں رہتیں اور پھر خواتین بڑے پیمانے پر طلاق کی جانب بڑھتی ہیں۔
جذباتی ہم آہنگی کی کمی
بہت سی خواتین شادی کے وقت جو توقعات رکھتی ہیں وہ شادی کے بعد پوری نہیں ہوتیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مردوں کی نسبت خواتین اس بارے میں زیادہ توقعات رکھتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کی جذباتی ضروریات پر پورا اتریں گے، لیکن شادی کے بعد یہ توقعات مایوسی میں بدل سکتی ہیں۔خواتین مسائل اور کسی رشتے میں منفی علامات کو بہتر انداز میں سمجھتی ہیں اور بات چیت کرنے اور اپنی طبعیت میں ہمدردی کا رجحان ہونے کی وجہ سے وہ مسائل کی نشاندہی بھی پہلے کرتی ہیں، جس کا نتیجہ آخر کار علیحدگی یا طلاق کی شرح میں سامنے آتا ہے۔
قریبی افراد کے مشورے
عموماً مردوں کے مقابلے میں خواتین کے قریبی دوست بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ میں صرف 15 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی قریبی دوست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کے پاس ایسے دوست زیادہ ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنی شادی کے مسائل کے بارے میں زیادہ کھل کے بات کر سکتی ہیں اور یوں وہ ان کے لیے شادی ختم کرنے اور دوبارہ سے اکیلے زندگی گزارنا قدرے آسان ہوتا ہے۔
گھریلو مشقت
شادی کے بندھن میں گھر کے کام کی صورت میں عورت گھریلو مشقت زیادہ کرتی ہے اور اگر وہ نوکری بھی کرتی ہو بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ یہ سب کچھ نبھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے جبکہ طلاق کی صورت میں وہ اس ذمہ داری سے فارغ ہو جاتی ہے اور یہ ہی مسائل طلاق کے رجحان کو بڑھاتے ہیں کیونکہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں مساوی سلوک نہیں ہوتا اور ساری ذمہ داری عورت کو اٹھانی پڑتی ہے۔اگر معاشرے میں عورت کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے تو اس کے لیے حالات بہتر ہو جاتے ہیں اور اس طرح کم امکانات ہیں کہ وہ طلاق جیسے متنازعہ عمل کے بارے میں سوچے یا علیحدگی میں پناہ ڈھونڈے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔