بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں انہیں زحمت بنا دیا گیا ہے۔غریب اور مجبور والدین سسرال میں ہونے والے مظالم پر اپنی بیٹیوں کو واپس اپنے گھر لانے پر تیار نہیں ہوتے۔ان مظالم کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بُرے رویے کے لیے کوئی وجہ ضروری نہیں ہوتی یہ بس کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے جس کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے۔زیادہ تر لوگ اس کی وجہ کم جہیز لانے یا نہ لانے کو قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین محض اپنا گھر بچانے کے لیے تشدد کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں اور اپنے شوہروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر طلاق کے خوف سے محض گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی رہتی ہیں۔پاکستان میں شادیوں کے موقع پر دیا گیا یہی جہیز اس وقت دوبارہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے، جب دلہا دلہن کی آپس میں نہ بن پائی ہو اور معاملہ طلاق تک پہنچ جائے۔ جو دلہن شادی کے وقت جہیز کے ساتھ سسرال جاتی ہے، وہ طلاق کی صورت میں اکثر اکیلی ہی میکے واپس آتی ہے اور جہیز سسرال ہی میں رہ جاتا ہے۔ یہ پہلے ہی جذباتی اور سماجی اذیت سے گزرنے والی دلہن اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوتی ہے۔ اگر دلہن کسی غریب خاندان کی لڑکی ہو تو یہی ناانصافی اپنے مالی اثرات میں ایک المیہ بن جاتی ہے۔
اس المیے کے خاتمے کے لیے قانون پر قانون بن رہے ہیں جیسے قومی اسمبلی کی رکن شرمیلا فاروقی نے ’جہیز کی ممانعت کا بل 2025‘ پیش کر دیا ہے۔بل کے تحت ملک میں جہیز کے لین دین پر مکمل پابندی عائد کرنے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔بل کے مطابق، جہیز کی لین دین میں ملوث افراد کو پانچ سال قید اور کم از کم اڑھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔علاوہ ازیں، خلاف ورزی کرنے والے شخص پر جہیز کی مالیت کے مساوی رقم بطور جرمانہ بھی عائد کی جائے گی۔جہیز کا بلا واسطہ یا بلواسطہ مطالبہ کرنے والے شخص کو دو سال قید اور اڑھائی لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی، جس میں مزید توسیع بھی ممکن ہوگی۔شادی کی تشہیر میں جائیداد کی پیشکش کو جرم قرار دیا جائے گا، اور ایسا کرنے والے شخص کو دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔جہیز کسی اور فرد کو دینے کے بجائے صرف دلہن کی ملکیت میں شمار ہوگا، اور اگر کسی شخص نے جہیز یا جائیداد دلہن کو منتقل نہ کی تو اسے تین سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔بل کے نفاذ کے بعد 1976 کے “جہیز و تحائف پابندی ایکٹ” کو منسوخ تصور کیا جائے گا، اور نیا قانون اس کی جگہ لے گا۔
جہیز کے خاتمے کے لیے قوانین پہلے بھی موجود تھے جن پر عمل نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے جہیز کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو شعور دیا جائے کہ جہیز کسی بھی خاتون کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ اس کا جائز حق یعنی تعلیم،روزگار،وراثت جیسے حقوق کے ذریعے ہی اس کا تحفظ ممکن بنایا جا سکتا ہے نہ کہ گھر کی اشیاء سے بھرا ہوا ٹرک جو بعض اوقات لڑکی کو تحفظ دینے کے بجائے اس کے لیے مسائل زیادہ پیدا کرتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔