انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معاشرتی حیوان ہے،وہ کبھی اکیلا رہنا نہیں چاہتا اورکئی وجوہات کی بناء پراسےزندگی بھرخاندان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔پوری دنیا میں دو خاندانی نظام ہیں ایک جوائنٹ فیملی سسٹم اور ایک سنگل فیملی سسٹم۔سنگل فیملی سسٹم میں ایک انسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خاندان بنا کر رہتا ہے جبکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں کئی خاندان مل کر رہتے ہیں جن کا ایک سر براہ ہوتا ہے۔دنیا کے زیادہ تر حصوں میں سنگل فیملی سسٹم ہی رائج ہے جبکہ بر صغیر پاک و ہند میں جوائنٹ فیملی سسٹم بھی رائج ہے جس میں ایک ہی گھر میں کئی خاندان مل کر رہتے ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ بدلنا شروع ہوئی ہے اور اب یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کے خلاف بات کی جانے لگی ہے اور بہت سے لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں ۔یہ سسٹم کتنا بہتر ہے اور اور اس کے کیا مسائل ہیں ہم اس بلاگ میں اس پر ہی بات کریں گے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کے فوائد
پوری دنیا میں اور خاص طور پر ترقی یافتہ اور یورپی ممالک میں تنہائی اب ایک مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ وہاں ہر انسان اپنے طریقے سے جینا چاہتا ہے لیکن انسانوں کے ساتھ مل کر رہنے کی سوچ کبھی پرانی نہیں ہونے والی اور جوائنٹ فیملی سسٹم میں آپ کبھی اکیلے نہیں ہو سکتے۔خوشی ہو یا غم ہو،بچوں کے مسائل ہوں،کوئی مشورہ چاہیے ہو یا کچھ سیکھنا سیکھانا ہوجوائنٹ فیملی سسٹم سب کا حل ہے۔بچوں کی تربیت میں گھر کے بڑے اپنی زندگی کے تجربے کی روشنی میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں خاص طور پر اگر میاں بیوی کام کرنے والے ہوں تو وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ ہمارے پیچھے بچوں کا کوئی خیال رکھنے والا ہے اور اس طرح بچے بھی متاثر نہیں ہوتے بلکہ ایک صحت مند ماحول میں زندگی گزارنے کے بہتر طریقے سیکھتے ہیں،مل کر کھیلنا،چھوٹوں کا خیال رکھنا اور بڑوں کی اہمیت کو سمجھنا یہ سب وہ سیکھتے ہیں۔
اس سسٹم میں کیونکہ کئی خاندان ایک جگہ رہتے ہیں تو گھر کا خرچا بھی کم ہوتا ہے۔آج کے مہنگائی کے دور میں ہر کسی کی انکم اتنی نہیں ہوتی کہ وہ گھر خرید سکے یا گھر کا کرایہ دے سکے تو مل کر رہنے سے اخراجات بہت کم ہو جاتے ہیں اور اس طرح مجموعی طور پر اس سسٹم میں رہنے والے کئی فوائد اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کے مسائل
جب ایک انسان اس سسٹم میں رہتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سسٹم کئی طرح تکلیف دہ بھی ہے۔اس سسٹم میں ایک سر براہ کی حکمرانی چلتی ہے اور اس طرح باقی لوگ اپنی سوچ پر عمل نہیں کر پاتے اسی طرح کیونکہ سب ایک جگہ رہتے ہیں اور ہر کسی کے پاس بس ایک کمرہ ہی ہوتا ہے تو اکثر لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی نہیں جی رہے اور ان کی پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔پھر سونے پر سُہاگا یہ ہو جاتا ہے کہ جب کئی مزاجوں اور سوچ کے افراد ایک جگہ رہتے ہیں تو ان میں لڑائی جھگڑے اور غلط فہمیاں بھی بہت ہو جاتی ہیں جس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے اور اس کے علاوہ جب بچے لڑتے ہیں تو بڑے بھی ان کی لڑائی کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح گھر ایک جنجال خانہ بن جاتا ہے جس میں کسی کو سکون نہیں ہوتا۔
زیادہ مسائل اس وقت بنتے ہیں جب ایک فرد کم ذمہ دار ہوتا ہے اور اس کا دھیان صرف کھانے پر ہوتا ہے تو اس صورتحال میں باقی لوگ شکایت کرتے ہیں جو مسلسل بے سکونی کا باعث ہوتی ہے۔جو سکون سے گھریلو سیاست میں پڑے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں انھیں بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اس کا حصہ بنیں۔
پیرنٹنگ کے مسائل
جب ایک انسان خاندان بنانے کا سوچتا ہے تو اسے بچوں کی تربیت کا بھی سوچنا پڑتا ہےاور بچوں کی تربیت آج کے دور میں ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔جو والدین اپنے بچوں کی تربیت اپنے انداز میں کرنا چاہتے میں ان کی سوچ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پوری نہیں ہو پاتی کیو نکہ بچے نے وہ ہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو وہ دوسرے بچوں کو کرتا دیکھتا ہے اور اس طرح والدین کُڑھتے رہتے ہیں اور کچھ کر نہیں پاتے۔
مذہبی تعلیمات کیا کہتی ہیں؟
اسلامی تعلیمات میں ہمیں جوائنٹ فیملی سسٹم کی حمایت کہیں نظر نہیں آتی۔آپؐ کی ازواج کے ھجرے الگ الگ تھے اور کہیں ایسا ذکر نہیں کہ وہ ایک جگہ رہ رہی ہوں۔پھر اسلام میں خواتین کو پردے کا حکم ہے اور جوائنٹ فیملی سسٹؐم میں اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔اس سسٹم میں مالی معاملات بہت زیادہ واضح نہیں ہوتے، کسی پر مالی بوجھ زیادہ پڑتا ہے جبکہ کسی پر کم۔ اِس سسٹم میں رہتے ہوئے بظاہر خوش نظر آنے والے فیملی ممبرز بھی دل میں ایک دوسرے کے لئے بغض وکینہ یا بغض نہ سہی، ایک دوسرے کے خلاف گلے شکوے ضرور رکھتے ہیں۔
اس سسٹم میں رہتے ہوئے ماں باپ کی خواہش کے باوجود بچوں کی اعلی تربیت ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ جوائنٹ فیملی میں سب کچھ اپنے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ نیز اس سسٹم میں رہتے ہوئے سب لوگ اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ بھی نہیں سمجھتے جو شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جن کی بناپر یہ سسٹم شریعت کی منشا کو سپورٹ نہیں کرتا۔ لہذا حتی الامکان مشورہ اور تجویز سنگل فیملی ہی کی دی جائے گی۔ تاہم اس کے باوجود یہ فیملی سسٹم شریعت کی نظر میں کوئی ناجائز بھی نہیں۔ اگرفیملی ممبرز مل بیٹھ کران قباحتوں کو دورکرنے پرآمادہ ہوجائیں تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔