پاکستان کے ایک اہم سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ زیادہ تر پاکستانی جوائنٹ فیملی سسٹم کے حامی ہیں ۔سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 62 فیصد پاکستانی جوائنٹ فیملی سسٹم کے حامی ہیں، جنہوں نے مشترکہ خاندانی نظام کو اہم کہا ہے۔مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کرتی ہیں جو حالات کو قابو میں رکھتی ہیں۔ہم اپنے معاشرے میں کچھ باتوں کا خیال رکھیں تو اس نظام کو اپنے لیے بہتر بھی بنا سکتے ہیں۔
والدین کا امتیازی سلوک
اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔
جذباتی دبائو
اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے کیونکہ اس طرح نہ صرف وہ نا خوش رہیں گے بلکہ باقی افراد کے مسائل کا بھی باعث بنیں گے۔
گھر کی ترتیب
گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے اس طرح سب ایک ساتھ بھی رہیں گے اور ایک دوسرے کی زندگیوں میں بھی دخل نہیں دیں گے۔
تحمل اور برداشت
بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے کیونکہ بچے تو لڑ کر پھر ایک ہو جائیں گے لیکن بڑوں کے بیچ کی لڑائی سالوں مسائل پیدا کرے گی۔
بہتر جوائنٹ فیملی سسٹم کےلیے ضروری ہے کہ اولاد والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لائے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، والدین کو بھی چاہیے کہ اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔