نوروز کا معنیٰ ہے’’ نیا دن‘‘ جو کہ شمسی سال کا پہلا دن بھی ہے، اور عیسوی حساب سے 21 مارچ کو خاص طور پر فارسی زبان بولنے والے ممالک یہ دن جشن کے طور پر مناتے ہیں، یہ دن اہلِ مشرق کے لیے بہار کی آمد پر مسرت اور شادمانی کا اظہار ہے، ایرانی شمسی نظام یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال کاآغاز شمار کرتے ہیں اور اس آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیںلیکن یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں، بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں، جیسے: تاجکستان، افغانستان،آزربائیجان، ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو جشن یا تہوار کے طور پر مناتے ہیں، اس جشن کا وجود حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سے ملتا ہے۔نوروز کی علامتیں آگ ، روشنی اور سورج ہیں، ان مظاہر قدرت کی عبادت اس خطہ ارض میں ”جس میں ایران، آذربائیجان اور موجودہ عراق و شام کے چند علاقے‘‘ شامل ہیں تین ہزار سال قبل مسیح بھی کی جاتی تھی، زرتشت (آگ کو پوجنے والوں ) کے بقول ہزاروں برسوں سے جاری یہ جشن اور تہوار موسم سرما کے خاتمہ اور بہار کے موسم کی نوید لے کر آتا ہے، اسی بناء پر زرتشت لوگ اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں جبکہ مختلف ممالک میں یہ تہوار موسم سرما کے خاتمہ اور بہار کے موسم کی نوید لے کر آتا ہے اورکئی کئی روز تک جاری رہتاہے۔
چہار شنبے
نوروز بہار کی آمد کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب زرعی سرگرمیاں زوروں پر ہوتی ہیں ۔ فطرت کا نیا دور شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کا آغازہوتا ہے۔ یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی روایات اور رواج وابستہ ہیں۔ اصل دن سے قریباً ایک ماہ قبل تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ چار ہفتے دراصل چہار شنبے ہیں۔ ہر بدھ یا چہار شنبہ فطرت کے چار عناصر سے منسوب ہیں۔ ان کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں۔ ان چار بدھ یا چہار شنبوں کے بارے میں آذربائیجان کے علاقے شیروان میں دلچسپ کہانی مشہور ہے۔ چار چہار شنبوں میں سے پہلا ہوا کے لئے مخصوص ہے، دوسرا پانی ، تیسرا زمین اور چوتھا درختوں اور پودوں کے احیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان چار مخصوص چہار شنبوں میں سے آخری یعنی ہوا کا چہار شنبہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس دن سب سے اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ تقریبات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوتی ہیں۔ یہ رسومات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ سال کے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پانا اور نئے سال کے ایسے مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔
ھفت سین
نوروز کی ایک دلچسپ رسم یہ ہے کہ لوگ سال کے آغاز پر اپنے گھروں میں ایک خصوصی دسترخوان بچھاتے ہیں جس پر سات مختلف اور مخصوص اشیاء رکھی جاتی ہیں جن کا نام حروف تہجی کے مطابق “س” سے شروع ہوتا ہے. اس رسم کو “ھفت سین ” کا نام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ سات اشیاء سیب، سبز گھاس، سرکہ، گندم سے تیار شدہ ایک غذا سمنو، ایک رسیلا پھل یا بیر(سنجد)، ایک سکہ اور لہسن (سیر) پر مشتمل ہوتی ہیں۔ہفت سین دسترخوان یا سین سے شروع ہونے والے سات کھانوں کے دسترخوان کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے.یہ اشیاء زندگی میں سچ، انصاف، مثبت سوچ، اچھے عمل، خوش قسمتی، خوشحالی، سخاوت اور بقاء کی علامات ہیں۔
آگ پر سے کودنا
نوروز کا ایک اور دلچسپ رواج آگ پر سے کودنا ہے۔ آج کل یہ رواج کچھ زیادہ عام نہیں، زیادہ تر خاندان صرف موم بتیاں جلا لیتے ہیں یا لکڑی کی کچھ شاخوں کی مدد سےایک چھوٹا سا الاؤ جلا لیاجاتا ہے۔ یہ رواج قدیم فارس کی یادگار کے طور پر اب بھی رائج ہے۔
خانہ تکانی
ایران میں جشن نوروز کوروش اور ہخامنشی بادشاہوں کے زمانے میں بھی رائج تھا جنہوں نے اسے باقاعدہ طور پر قومی جشن قرار دیا تھا۔ایرانی قوم نوروز کو سال کے بڑے تہوار کے طور پر مناتی ہے. نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں. اس کو “”خانہ تکانی”” کا نام دیا جاتا ہے. اس موقع پر لوگ ہر نئی چیز خریدنے کی کوشش کرتے ہیں
پاکستان میں موسم بہار کی آمد اور نوروز کی تقریبات، صوبے بلوچستان (کوئٹہ، جعفرآباد، مکران، گوادر)، صوبے گلگت۔ بلتستان (گلگت، اسکردو، ہنزہ، اسٹور، چترال)، صوبے خیبر پختونخوا (پشاور، سوات، بانو) اور کچھ قبائلی علاقوں اور صوبے پنجاب کے مختلف شہروں میں انعقاد کی جاتی ہیں۔پاکستان میں نوروز کے روایتی رواج میں سے ایک خاص طور پر شمالی صوبے گلگت بلتستان میں ایک دوسرے کو رنگین انڈے دینے، رشتہ داروں کے گھر جانااور پولو کھیلنا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔