بحث مباحثے اور لڑائیاں روزمرہ زندگی کے معمول کا حصہ ہیں لیکن کچھ ایسی غلطیاں ہیں جو جھگڑے کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ان سب حالات سے مکمل طور پر بچ جانا بہت مشکل ہے کبھی نہ کبھی آپ کو یہ حالات دیکھنے ہی پڑتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حالات سے ایسے گزرا جائے کہ رشتے پر فرق نہ پڑے۔بحث مباحثے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ آپ کو دوسرے فرد کی بات سننے کا موقع ملتا ہے اور اس طرح آپ بھی اپنی بات دوسرے فرد سے کر سکتے ہیں لیکن اس بحث کا خاتمہ اس طرح ہونا چاہیے کہ دونوں طرف کے افراد کسی اچھے اور سود مند نتیجے تک پہنچ سکیں۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اپنے جذبات کو دبایا جائے اور جب یہ دبے ہوئے جذبات اور خیالات سامنے آتے ہیں تو حالات سنبھالنے مشکل ہو جاتے ہیں۔جب کوئی بحث ہوتی ہے توہم میں سے بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کس طرح بحث کی جائے کہ جس کا انجام کسی بد مزگی کے بجائے مسئلے کے حل پر ہو۔دوسری صورت میں مسئلہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑ ھ جاتا ہے۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی بحث کے دوران آپ وہ غلطیاں نہ کریں جس سے مسئلہ مزید بڑھ جائے جبکہ مثبت سوچ کے ساتھ کی گئی بحث کو فائدہ مند بنا یا جا سکتا ہے۔آئیے معلوم کرتے ہیں کہ وہ کونسی غلطیاں ہیں اور ان سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے
:مسئلے کے حل کے بجائے شکایات پر زور ہونا
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ترقی کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی شکایات سامنے لائیں اور بتائیں کہ آپ کے کیا مسائل ہیں اور پھر جلد اس کے حل کی طرف بڑھ جائیں۔کچھ وقت مسئلے کے حل کے لیے ذہن پر زور ڈالیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو بار بار دہرانے کے بجائے یہ بہتر ہو گا کہ مسئلے کے حل کی طرف آجائیں۔وہ حل جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو اور زیادہ مناسب ہو۔
:”ہمیشہ“ یا کبھی نہیں“ جیسے الفاظ کا استعمال کرنا
یہ جملہ کہ ”تم ہمیشہ یہ کرتے ہو“ یا ”تم یہ کبھی نہیں کرتے“ ایسے تمام جملے نا صرف ڈرامائی قسم کے ہیں بلکہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہو۔ماہر نفسیات”ہو“ کے مطابق ایسے جملے دوسرے فرد کو دفاعی پوزیشن میں لے آتے ہیں اور بجائے اس کہ وہ شخص آپ کی بات کو سمجھے وہ آپ کے غلط جملے کو درست کروانے بیٹھ جاتا ہے۔اس کے بجائے اگر ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جیسے ”کبھی کبھی“”کئی دفعہ“اور”اکثر“ تو یہ منصفانہ انداز ہو گا جس کے بعد ایک دوسرے کی توہین کرنے کے بجائے دونوں افراد ایک اچھے نتیجے کی طرف جائیں گے جو قابل قبول بھی ہو گا۔
:لفظ ”میں“ کے بجائے”تم“ کا استعمال
لفظ ”تم‘کا استعمال کر کے بھی آپ دوسرے فرد کو اپنا دفاع کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ”تم نے سب تباہ کر دیا“”تم نے مجھے مجبور کیا“ وغیرہ۔ایک ماہر نفسیات کے مطابق ایسے الفاظ اگلے فرد کو مزید جھگڑے پر اُکساتے ہیں۔اس کے بجائے”میں“ کے جملے جیسے”میں ناراض ہوا تھا“یا ”مجھے ضرورت ہے“۔یہ سب جملے آپ کے جذبات کو الزام دئیے بغیرظاہر کریں گے اوردوسرا فرد آپ کی بات کو بہتر طریقے سے سمجھ کر مسئلے کے بہتر حل کی طرف جا سکے گا۔
:دوسرے کی بات سمجھنے کے بجائے بولتے جانا
جب دو لوگوں کا جھگڑا ہوتا ہے تو دونوں لوگ عام طور پر ایک دوسرے کی بات سننے کے بجائے صرف اپنی بات سنانے پر اڑے ہوتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جب کسی فرد کی مکمل بات سنے بغیر ہم آگے سے بحث شروع کر دیتے ہیں تو غلط فہمی کی بنیاد پر جھگڑا مزید بڑھتا جاتا ہے۔اگرچہ کسی دوسرے کی بات کو سننابھی ایک مہارت کا کام ہے لیکن جب آپ دوسرے کی بات سنیں گے تو مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔جب آپ ایک دوسرے کی حرکات و سکنات اور جذبات کو سمجھیں گے تو دونوں ایک بہتر حل کی طرف جا سکیں گے۔
:سانس لینے کا غلط طریقہ
جب آپ جھگڑے کے دوران مختصر دورانیے کی سانس لیتے ہیں تو ایسے میں جھگڑے مزید بڑھتے ہیں جبکہ اس کے بجائے لمبی سانس لی جائے تو آپ پر سکون ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھ کر بہتر حل نکال پائیں گے۔
:نا خوشگوار ماحول میں جھگڑے کا اختتام
جھگڑے کے دوران دونوں افراد ایک دوسرے کو سنتے ہیں اور اپنے چھپے ہوئے جذبات بھی ظاہر کر دیتے ہیں اور اس کے بعد بغیر کسی نتیجے کے بات بیچ میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو یہ مناسب بات نہیں ہے۔حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں آپس کے اختلافات کو منطقی انجام پر پہنچا دیں تو بہت بہترین بات ہے اور ایسے الفاظ جیسے”آج میرے مسائل سننے کے لیے میں تمھارا شکر گزار ہوں“یا یہ کہنا کہ”آج مجھے تم تک اپنی بات پہنچانے کا موقع ملا“آگ پر پانی ڈالنے کے مترادف ہے اور اس طرح ایک دُکھ پہنچانے والی بات خوشی میں بدل جاتی ہے۔آخر میں ایک دوستانہ انداز سارا مسئلہ ہی ختم کر دیتا ہے۔آپ جو بھی طریقہ اختیار کریں دوسرا فرد آپ کو سراہے گا کہ آپ نے شکریہ ادا کیا اور تمام تر اختلافات کے باوجوداپنے تعلق کی اہمیت کو جانا اور بہتر حل کی کو شش کی۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔