پاکستان کی حسین ترین وادی کیلا ش میں صدیوں سے آبادکیلاشی پاکستان کی واحد قو م ہے جو سال میں سب سے زیادہ تہوار مناتے ہیں، کیلاش کے لوگ دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں، جس میں چلم جوش اور چوموس شامل ہے۔ کیلاش قبیلے کا سالانہ تہوار ”چلم جوش“ ہر سال موسم بہار کی آمد پر14مئی سے 16مئی تک منایا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے رنگارنگ اور مشہورتہوارکی حیثیت سے سب سے زیادہ شہرت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وہ تہوار ہے جو وادی کیلاش کی پہچان بنا اور ہر سال پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے وادی کیلاش آتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال میں کوہ ہندوکش کے بلندو با لاپہاڑوں کے بیچ میں محصور کیلاش قبیلے نے کئی صدیوں سے اپنی منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھا ہو ا ہے۔کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔اگر چہ دنیا نے بہت ترقی کرلی، دنیا میں بسنے والی اقوام نے اپنے رہن سہن کے طریقے بدلے، اپنی روایات میں جدید دورکے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کیں لیکن اس تہذیب کو ماننے والوں نے نہ ثقافت کو مرنے دیا نہ اپنے طور طریقوں کو۔ یہ لوگ اپنی معاشرت اور رسم ورواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں اور اپنے انہی رسوم و رواج کی بدولت موجودہ زمانے میں منفردحیثیت رکھتے ہیں۔
چلم جوش کو وادی میں مذہبی تقریب کا درجہ حاصل ہے۔ اس دن خاص اہتمام کے ساتھ کھانے تیار کئے جاتے ہیں ۔ تہوار کے پہلے روزآپس میں بکری کا دودھ بانٹا جاتا ہے ہے۔ سب سے پہلے نو مولود بچوں کو دودھ پلایاجاتا ہے ۔پھر دوسرے بچوں کی باری آتی ہے۔ اس کے بعد نوجوانوں ، جوانوں اور بڑوں کو تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کے لئے دیا جاتا ہے ۔تمام افراد کو دودھ پہنچا کر اس تقریب کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے۔ اس کے بعد قبیلے کے بزرگ کھلے آسمان تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس روٹی میں ہر قسم کے آٹے کے علاوہ علاقے میں پائے جانے والے تمام میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں جویہاں کی ایک سوغات بھی ہے۔روٹی کھانے کے بعد تمام مرد و زن مذہبی مقام ”جسٹک خان“ کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں ۔ مرد حضرات اوروادی میں آنے والے سیاح ارد گرد بیٹھ کریہ منظر دیکھتے اور داد دیتے ہیں۔یہ عمل شام ڈھلے تک جاری رہتا ہے پھر جیسے ہی سورج نیچے اترنا شروع کرتا ہے یہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔cلم جوش کا آخری دن نہایت اہم ہوتا ہے۔ سہ پہر کو جب کیلاش قوم ایک میدان میں جمع ہوتی ہے تو تمام خواتین خواہ کسی بھی عمر کی ہوں پھر سے ناچنا اور گانا شروع کردیتی ہیں۔ اس وقت کچھ مذہبی پیشوا ایک مقام پر اکھٹے ہو کر ہاتھوں میں پودوں کی سبز شاخ اٹھائے ہوئے میدان کی طرف آتے ہیں۔ تمام خواتین ان کو سلامی پیش کرتی ہیں۔اب وہ آخری مرحلہ آتا ہے جوبہت منفرد ہے۔ یہ موقع محبت کا سر عام اظہار ہے۔ ایک دوسرے سے محبت کرنے والا لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، ایک دوسرے کاہاتھ تھامتے ہیں اور شادی کا اعلان کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کے مقامی افراد صدیوں سے اپنی روایات پر قائم ہیں۔ان کی روایات کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ کیلاشی لڑکیاں ہمیشہ گھر سےبھاگ کر شادی کرتی ہیں۔ جبکہ ہوتا یہ ہے کہ وادی کیلاش میں ہر سال ایک جشن منایا جاتا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کو اپنا ہم سفر چننے کی آزادی دی جاتی ہے۔اور جب ایک لڑکی کسی کو پسند کر لیتی ہے تو اس لڑکے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے چلی جاتی ہے۔اور واپسی پر اپنے والدین کو اس بات سے آگاہ کرتی ہے اور پھر دونوں خاندانوں کی مرضی سے شادی ہو جاتی ہے۔لڑکیاں جہیز میں بڑے بڑے پیتل اور دیگر دھاتوں کے برتن اور دیگچے لے کر جاتی ہیں اور اس رسم کو شادی کے لیے نیک شگون سمجھا جاتا ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔