وادی ہنزہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ گلگت سے شمال میں نگر کے ساتھ اور شاہراہ ریشم پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے 700 کلومیٹر کے فاصلے پر شاہراہ ریشم کے کنارے پر واقع یہ وادی سطح سمندر سے 2500 میٹر بلند ہے۔ اسلام آباد سے اس کا راستہ حسن ابدال، ایبٹ آباد،مانسہرہ،تھا کوٹ، بشام، داسو، چلاس ،گلگت سے ہوتا ہوا ہنزہ آتا ہے۔ ایک اور راستہ مانسہرہ سے بالاکوٹ ناران اور بابوسر پاس سے ہوتے ہوئے چلاس کے ساتھ ملتا ہے۔وادی ہنزہ گلگت سے صرف 100 کلومیٹر اور 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ راولپنڈی سے جدید آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ گلگت و ہنزہ کے لیےہر وقت دستیاب ہوتی ہے۔اسلام آباد سے جہاز کے ذریعے گلگلت بھی جایا جا سکتا ہے۔ اپنی گاڑی پر ایک دن چلاس یا گلگلت آرام کرکے باآسانی ہنزہ پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ وادی 7900 مربع کلومیٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔
ہنزہ میں مقامی راجا کی حکومت ہوتی تھی جسے میر آف ہنزہ کہا جاتا تھا۔ بھٹو دور میں ریاستی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہنزہ میں بھی یہ نظام ختم ہو گیا۔ آج بھی ہنزہ میں میر تو ہے مگر صرف اعزازی عہدہ کے ساتھ ۔وادی ہنزہ گلگلت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ جہاں کی زبان بروشسکی ہے جو دنیا کی تنہا اور مشکل زبان سمجھی جاتی ہے جبکہ واخی اور شینا زبان بھی بولی جاتی ہے۔
وادی ہنزہ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی وادیاں اور قصبے شامل ہیں۔ وادی تین علاقوں پرمشتمل ہے بالائی ہنزہ ، مرکزی ہنزہ ، لوئر ہنزہ۔ ہنزہ کا سب سے اہم شہر علی آباد ہے جبکہ سیاحت کے لیےاور اردگرد کے نظاروں کے لیے کریم آباد مشہور ہے۔ کریم آباد میں ہوٹلوں کی بہتات ہے۔ سستے اور مہنگے ہر معیار کے ہوٹل مل جاتے ہیں جبکہ گیسٹ ہاؤس اور ایک کمرہ میں مشترکہ بیڈ کے ساتھ نہایت ہی سستی ماہانہ و ہفتہ وار بنیادوں پر بھی رہائش مل جاتی ہے۔کریم آباد کے چاروں طرف اونچی چوٹیاں ہیں جن کے نظارے دنیا میں مشہور ہیں ۔ہنزہ کے اردگرد موجود چوٹیوں میں راکا پوشی، دیران پیک، گولڈن پیک، التر پیک، لیڈی فنگر پیک مشہور ہیں۔ کریم آباد کا بازار ہنزہ کی ثقافتی اشیاء سے بھرا پڑا ہوتا ہے چونکہ ہنزہ میں پاکستانی سیاحوں کی نسبت غیر ملکی سیاح زیادہ آتے ہیں اس لیے یہ بازار قدرے مہنگا محسوس ہوتا ہے۔
کریم آباد میں موجود میر کا پرانا گھر بلتت قلعہ کریم آباد کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ تقریباً 700 سال پرانا یہ قلعہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کریم آباد کے قریب ہی ایک اور پرانا قصبہ التت ہے جو وادی ہنزہ کا سب سے پرانا علاقہ تصور کیا جاتا ہے جس میں موجود التت قلعہ 900 سال پرانا ہے۔ ہنزہ کے گرد و نواح میں ایک دن میں صبح جا کر شام گئے واپس آجانے والے سیر کے مقامات میں سب سے مشہور ڈوئیکر یا ایگل نیسٹ ہے جہاں پیدل یا جیپ کے ذریعے جایا جاسکتاہے۔ یہ جگہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت برف پوش چوٹیوں پر پڑنے والی سورج کی کرنوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ جیپ پر دریا کے دوسرے کنارے پر واقع وادی نگر بھی جایا جا سکتا ہے جہاں پر گلیشئیرز کا نظارہ دیدہ زیب ہوتا ہے۔ راکاپوشی کے دامن میں واقع خوبصورت گاؤں مناپن ایک پورا دن بتانے کیلے بہترین جگہ ہے۔نومل اور نلتر کی خوبصورت وادیاں سیاحوں کے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی ہیں۔
قدرتی آفت کے نتیجے میں دریائے ہنزہ پر بن جانے والی جھیل عطا آباد اب ایک تفریحی مقام کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ جھیل کے نیلگوں پانیوں میں کشتی رانی ایک یادگار سفر بن جاتا ہے۔ صرف ایک دن مزید صرف کر کے جھیل کے پار اتر کر گلمت گاؤں، بورت جھیل، پسو گاؤں، پاکستان کے آخری قصبے سوست بھی باآسانی جایا جا سکتا ہے۔
چین کی سرحد کے ساتھ واقع دنیا کے سب سے اونچے خنجراب پاس کا سفر شائد اس پورے خطے کا سب سے حسین لمحات میں سے ایک ہوتا ہے۔اسلام آباد سے ہنزہ اور باقی وادیوں کا مکمل سفر چار، پانچ، سات اور دس دنوں میں اپنی سہولت کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ ہنزہ ہو یا ہنزہ کی بالائی وادیاں ہر جگہ بہترین سہولتوں سے آراستہ ہوٹل اور مقامی ٹرانسپورٹ اور گائیڈ کی حیثیت سے مقامی لوگ دستیاب ہیں۔
پورا خطہ مہمان نواز اور خوش اخلاق ہے اور سیاحوں کو اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھنے کے باعث ان کو رحمت تصور کرتے ہیں اور بہترین خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لاہور و اسلام آباد کی بہت ساری مقامی ٹورازم کمپنیاں تجربہ کار سٹاف کے ساتھ طالب علموں، دوستوں و فیملیوں کے گروپ کی شکل میں نہایت مناسب قیمت پر سارے انتظامات بھی کرتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔