پاکستان میں گرمیوں کے اختتام کے بعد اکتوبر کے مہینے سے شادیوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے پنجاب اور خصوصاً لاہور میں ایک اور سیزن ہے جو شادیوں کے سیزن کے ساتھ شروع ہو جاتا ہےاور وہ ہے سموگ کا سیزن۔سموگ پیلی یا کالی دھند کا نام ہے جو فضا میں آلودگی سے بنتی ہے۔سموگ باریک ذرات پر مشتمل ہوتی ہےجو مختلف گیس،مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں۔صعنتوں،گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ,ناٹئڑوجن آکسائیڈ کی بڑی مقدار میں ذرات بھی ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب سورج کی کرنیں ان گیس اور ذرات پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔اِس کے علاوہ جب سردیوں میں ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے تو دھواں اور دھند جمنے لگتے ہیں تو نتیجہ سموگ کی شکل میں نکلتا ہے سموگ سے دمہ یعنی سانس لینے میں دشواری،آنکھوں میں جلن،گلے میں خارش،نزلہ،زکام اور پھھپڑوں کے انفیکشن کا باعث بنتی ہے۔ سموگ سے پودوں کی افزائش کو بھی نقصان کے ساتھ ساتھ فصلوں اور جنگلات کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پنچاتی ہے۔
جہاں سموگ کے خاتمے کے لیےصنعتوں اور گاڑیوں کے دھواں کا مناسب بندوبست اور کوڑا کرکٹ جلانے کی حوصلہ شکنی اور تعمیراتی کام والی جگہ پر پانی کا چھڑکائوکر کے اور مصنوعی بارش برسا کےسموگ پر قابو پایا جا سکتا ہے وہیں ایک اہم رائے یہ بھی ہے کہ سموگ کے دوران شادیوں کی تقریب کو ایک دن تک محدود کر دیا جائے تاکہ کم از کم ایک ہفتے تک جاری رہنے والی شادی کی تقریب میں کم سے کم وسائل خرچ ہوں ،جتنا تقریب کو سادہ رکھا جائے گا اتنا ہی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے،اسی طرح ایک دن کی تقریب ہو گی تو کھانا بھی ایک دن پکے گا اور دوسرے انتظامات بھی کم ہوں گے اور اس طرح ایک ایسی شادی کی تقریب منعقد کی جا سکتی ہے جس میں مہمانوں کو بھی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی اور پورا ہفتہ گاڑیوں کا پٹرول جلانے کے بجائے ایک ہی دن شرکت کرنا پڑے گی۔مختصراً کم کھنا پکے گا جو گرین گیسز کا سب سے بڑا باعث ہے،کم پیٹرول جلے گا کم وسائل اور انرجی کے وسائل خرچ ہوں گےاور اسی طرح دوسرے لوازمات بھی کم سے کم ہوتے جائیں گے۔اور اس طرح کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ شادی کی تقریب ہماری زمین کے مسائل مزید بڑھانے کا باعث نہیں بنی۔
لاہور شہر پوری دنیا میں اپنی ثقافت اور طرز تعمیر کی وجہ اے مشہور ہے۔لاہور کے قصے کتابوں مین بیان کیے گئے۔جو لاہور آیا وہ اس کا گرویدہ ہو گیا لیکن سموگ کے بعد سے لاہور کا امیج پوری دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔دوسری وجوہات کے ساتھ اس شہر کے شہری بھی اس کو آلودہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں جو دھوم دھڑکے اور ہلے گلے کے بہت شوقین ہیں لیکن کیا اس دھوم مچانے کے چکر میں ہم اپنے لیے زندگی کے دائرے کو تنگ تو نہیں کرتے جا رہے۔شادی ایک نئی زندگی کا آغاز ہے اور زندگی کے آغاز کا تقاضا ہے کہ ہم اپنا ،اپنے آس پاس کے لوگوں اور نئی آنے والی نسل کا بھی خیال رکھیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔