جب کوئی خاتون امید سے ہوتی ہے تواردگرد کے لوگوں میں فوراً ’بیٹا‘ یا’ بیٹی‘ کی چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں حالانکہ پہلی دعا یہ مانگنی چاہئے کہ وہ جو بھی ہو‘ مکمل طور پر صحت مند اور ہر طرح کی معذوریوں سے پاک ہو۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں پیدائشی طو پر گونگے بہرے‘ نابینایا ذہنی طور پرمعذور بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ انہیں پالنا اور ان کی تعلیم و تربیت والدین کے لیے انتہائی کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ان سے وابستہ معاملات کی فہم اس مشکل کو آسان بنا دیتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ ملین افراد معذور ہیں جن میں سے 43.4 فی صدبچے ہیں۔ ان بچوں میں 58.4فی صد بچے او ر41.6فی صد بچیاں ہیں۔یعنی معذور بچوں کی تعداد بچیوں سے زیادہ ہے۔ صرف 14فی صد معذور افراد کام کاج کرتے ہیں جبکہ باقی اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے خاندان یا دیگر افراد پر انحصار کرتے ہیں۔اس معذوری کی بڑی وجہ موروثیت ہے اور ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ایک ہی خاندان میں مسلسل شادیاں کرنے سے جسمانی نقائص والے بچوں کی پیدائش کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ کسی بھی معذوری کے ساتھ زندگی گزارنا بچے اور والدین‘ دونوں کے لیے بہت صبرآزماہوتاہے۔
کزن میرج دنیا میں ہمیشہ سے ہے۔ کزن میرج کے وقتی فوائد بہت ہیں لیکن مسائل فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔آج انسان کا جینوم یعنی اس کا جینیاتی کوڈ جسے ڈی این اے بھی کہتے ہیں، پڑھا جا چکا ہے اور بیماریاں کس طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں، ہم ان کے بارے میں اتنی تفصیل سے جانتے ہیں جیسا پہلے ممکن نہیں تھا۔ اس فیلڈ میں بہت ریسرچ ہو چکی ہے۔ اب ہزاروں میل کا پیدل سفر کر کے کوئی بڑی لائبریری تلاش کرنے کی بھی ضرورت ختم ہو گئی۔ پب میڈ جیسی ویب سائٹس نے دنیا بھر کے اسکالرز کی تمام زندگی کی کھوج کے نتائج ہماری انگلیوں کی پوروں تک پہنچا دیے۔چند دہائیاں پہلے یہ مشاہدہ کیا گیا کہ قریبی رشتہ داروں میں بنائے ہوئے تعلقات سے ہونے والی اولاد میں چند مخصوص بیماریوں کی شرح زیادہ پائی گئی۔ اس وجہ سے آہستہ آہستہ تعلیم یافتہ انسان اور ممالک اس پریکٹس سے دور ہونا شروع ہوئے۔ تحقیق کے مطابق اس طرح کے امراض والدین سے بچوں میں مخصوص ڈی این اے کے باعث ورثے میں منتقل ہوتے ہیں، جیسے سیکھنے میں مشکلات اور ذہنی معذوری وغیرہ ور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے، اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلیسیمیا اور دیگر اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا۔
جینیاتی اعتبار سے بات کی جائے تو کزن میرج سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے، اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلی سیمیا اور دیگر اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا ۔سو اگر آپ کے آبا و اجداد آپ کے ڈی این اے کا اعشاریہ دو فیصد حصہ شیئر کرتے ہیں، تو اس کے مقابلے میں تھرڈ کزن سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح اعشاریہ آٹھ فیصد، سیکنڈ کزن میں تین اعشاریہ ایک فیصد اور فرسٹ کزن تیرہ فیصد ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق کزن میرج سے بچوں میں کسی موروثی مرض کا خطرہ چار سے سات فیصد تک بڑھتا ہے جبکہ عام آبادی میں یہ تین سے چار فیصد ہے۔
اسلامی حوالے سے تو کزن میرج جائز ہے لیکن واجب نہیں۔ ہمارا مذہب کزن میرج کو منع نہیں کرتا لیکن اس چیز کی ممانعت کرتا ہے کہ کسی بالغ شخص کو اس کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور کیا جائے۔ سو کزن میرج صرف اس لئے نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے کلچر میں، ہمارے قبیلے میں، ہمارے خاندان میں، ہماری کمیونٹی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن تب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے یہ آپ کے لئے ضروری ہے تب اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسی شادی سے قبل اپنی اور اپنے ہونے والے شریک حیات کی سکریننگ کروائیں۔ یعنی کچھ ٹیسٹ کروائیں تو اس سے رسک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سو جہاں تک کزن سے شادی کی بات ہے تو ایسا کرنے میں برائی نہیں اگر طبی معائنہ کرا کے جینیاتی امراض کے خطرے کی جانچ پڑتال کی جائے، تاہم اسے خاندانی روایت بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔