میڈیا پر دیکھائے گئے پرو گراموں کا عام عوام کی زندگیوں پر بہت اثر ہوتا ہے ۔جو کچھ ڈراموں یا فلموں کی صورت میں دیکھایا جاتا ہے عوام اس کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں اور اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور پسند آنے کی صورت میں تعریف بھی کرتے ہیں۔لیکن ساتھ میں میڈیا پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ صرف صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی انوکھے یا ہٹ کر موضوعات کو سامنے لایا جاتا ہے اور کیونکہ عام صارف کو اس کی عادت نہیں ہوتی تو اس پر بات بھی بہت ہوتی ہے خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے۔
گزشتہ دنوں چائلڈ میرج پر ایک ڈرامہ”مائی ری” کے بارے میں بہت بات کی گئی کیونکہ اس کا موضوع عام موضوعات سے ہٹ کر تھا۔یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جہاں چھوٹی عمر میں بچوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور یہ ہی کچھ اس ڈرامے میں دیکھایا گیا کہ ایک فیملی کی 13 سے 15 سال کی بچی کی شادی 15 سال کے لڑکے سےاس وجہ سے کر دی جاتی ہے کہ لڑکے کے والد بیمار ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور بھتیجی کی شادی ہو جائے اور یہ پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچوں کی مائیں جو رضا مند نہیں ہوتیں وہ بھی راضی ہو جاتی ہیں اور آخر ان بچوں کی شادی ہو جاتی ہے۔پہلے وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں لیکن پھر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے لگتے ہیں اور عوام میں اس ڈرامے کے کلپ شئیر کیے جانے لگے اور لوگ ان تمام معاملات کو پسند کرنے لگے ۔ان حالات میں چھوٹی عمر کی شادی کے تقصانات جاننے والے ڈرامے کے رائٹر اور ڈائریکٹر پر تنقید کرنے لگے کہ پاکستان میں پہلے ہی چائلڈ میرجز کا بہت رجحان ہے اور اب یہ ڈرامہ لوگوں کو اسے مزید خوبصورت بنا کر دیکھا رہا ہے۔ اور اسی طرح ایک دم یہ دیکھایا جاتا ہے کہ لڑکی پریگنینٹ ہے اور تب ہی اس ڈرامے کے بارےمیں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ باتیں ہوئیں اور کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کچھ نے اس بات کو اتنا بُرا نہیں سمجھا،لیکن جب ڈرامے میں یہ دیکھایا گیا کہ بچے کی وجہ سے دونوں ماں باپ شدید متاثر ہو رہے ہیں تو اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس ڈرامے کا مقصد پورا ہو گیا کیونکہ لوگ پہلے اس کو صرف ایک نئے موضوع کے طور پر لے رہے تھے لیکن پھر انھیں سمجھ آئی کہ ایسی شادیوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین میں سے ایک بچی کی شادی 18سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔چھوٹی عمر کی شادی کے نتائج دور رس ہیں اس سے نہ صرف ان بچیوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی پوری عمر متاثر ہوتی ہے۔چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929کے مطابق لڑکوں کی شادی کی قانونی عمر 18سال جبکہ لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 16سال ہے تاہم اس قانون کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔حکومتِ پاکستان نے ایک بل کے ذریعے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر18سال تک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بل نے ابھی تک قانون کی شکل اختیار نہیں کی۔چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ1929کے مطابق 16سال ے کم عمر کی بچی کی شادی میں ملوث افراد پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور ایک مہینے کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے تاہم اس قانون کو لاگو کرنے میں کمزوری دیکھائی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر ایسی شادیاں راز داری میں کی جاتی ہیں اور ان کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کہ ذریعے ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا جائے جو عوام میں شعور پیدا کریں اور انھیں بُرے نتائج سے آگاہ کریں تاکہ وہ خود عملی زندگی میں ایسی غلطی نہ کریں جس طرح ڈرامے میں دیکھا یا گیا کہ ایک غلط فیصلہ ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ آنے والے بچے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔یہ بچے اپنی پڑھائی میں پیچھے رہ گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کے روزگار کے مواقع کم ہو گئے اور زندگی ان کے لیے مزید مشکل تب ہو جاتی ہے جب وہ ذہنی اور جذباتی مسائل کے ساتھ جسمانی مائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔