اپنے اوائل دور میں پاکستانی ڈراموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور مشرق وسطی میں بھی اچھی خاصی شہرت حاصل کی ۔یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ڈرامہ کلاسیک کی حیثیت رکھتا تھا۔اس کی بنیاد ادب پر تھی اور اس میں اصل معاشرتی مسائل کا اجاگر کیا جاتا تھا جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث بنے۔ان ڈراموں نے معاشرتی اقدار کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔پاکستانی ڈرامہ جب 70 اور 80 کی دہائی میں نشر ہوا کرتا تھا تو سڑکوں پر سناٹا ہوتا تھا، دیکھنے والے انکل عرفی، شہ زوری، افشاں، قباچہ اور اِکا بوا جیسے حقیقت سے قریب تر کرداروں میں خود کو تلاشتے ملتے تھے۔ بعد کے سالوں میں تو سینکڑوں شاہکار ڈرامہ سیریل اور ڈرامہ سیریز آن ائر ہوئے۔ ‘زیر زبر پیش، انکل عرفی، کرن کہانی، ایک محبت سوافسانے، کہانی کی تلاش، پھول والوں کی سیر، شہزوری، پرچھائیں، ٹالی تلے، اکڑ بکڑ، بندش، الف نون، پینوراما، ڈاک بنگلہ، آخری چٹان، تعبیر، وارث، جنگل، چھوٹی سی دنیا، سونا چاندی، ہزاروں راستے، خلیج، برزخ، دیواریں، ایک محبت ایک فسانہ، آسمان تک دیوار، آنگن ٹیڑھا، شمع، انا، شکست آرزو، آسمان، اندھیرا اجالا، کانچ کا پل، ففٹی ففٹی، جانگلوس ،ائرپورٹ، رات، ماروی، دھواں، منڈی، عروسہ، آہٹ، کسک، نجات، دن، آنچ، الفا براوو چارلی، شانتل، انگار وادی، محاصرہ، گیسٹ ہاوس اور انگنت ایسے شاہکار ڈراموں کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ان ڈراموں نے عالمی سطح پر پاکستان کی ایک الگ ہی پہچان بنادی تھے۔
مشرق وسطی کے لوگ پاکستانی ڈرامے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ لیکن جب سے پاکستانی ڈرامے عربی زبان میں مترجم ہوئے ہیں اس کے بعد ان ڈراموں نے مشرق وسطی میں بھی اپنا ایک مقام بنالیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جب ایک ٹی وی نے پاکستان ڈرامے ہمسفر کو عربی میں ترجمہ کرکے دکھایا تو بہت بڑی تعداد میں ناظرین ملے، اس ڈرامے کا عربی میں نام رفیق الروح رکھا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر مختلف ڈرامے عربی میں مترجم کیے گئے جنھوں نے مشرق وسطی میں بڑی تعداد میں فین پیدا کیے۔اسی طرح ہندوستان میں بھی پاکستانی ڈرامہ کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔اگرچہ بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی ڈراموں پر پابندی لگانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن بھارتی عوام پھر بھی ان ڈراموں کو پسندکرتے اور دیکھتے ہیں۔
لیکن موجودہ پاکستانی ڈرامے کا مزاج بہت بدل گیا ہے ۔اب اس نے کمر شلزم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور یکسانیت کا شکار ہو گئے ہیں۔موجودہ دور میں اکثریت ایسے ڈراموں کی ہے جن میں عورت کو کمزور کرداروں میں دیکھایا جاتا ہے۔ڈراموں میں ٹرائینگل پر زور ہوتا ہے اور پورے ڈرامے میں ایک لڑکی یا ایک لڑکا اپنی پسند کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور اس دوران ہر منفی حربہ آزمانے اور تشدد کو اپنا حق سمجھتا ہے۔یہ سب حالات ہماری معاشرتی اقدار کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ٹی وی ہر گھر کے ہر بیڈ روم یا لیونگ روم کی زینت ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا میڈیم ہے جو پوری فیملی کے ساتتھ بیٹھ دیکھا جاتا ہے اور اس میں بچے جوان سب شامل ہوتے ہیں اور پھر یہ ہی بچے اور نو جوان ایسے رویوں کو اپنانا شروع کر دیتے ہیں۔یہ ایک ایسے ہیرو کو پسند کرنے لگے ہیں جو ہر محبت کےنام پر ہر قسم کے تشدد کو جائز سمجھتا ہے اور ایک ایسی لڑکی کو ہیرئوئن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اپنی محبت کے لیے ہر غلط بات کو برداشت بھی کرتی ہے بلکہ ہر منفی ہر بے کو آزمانا اپنا حق بھی سمجھتی ہے۔اسی طرح کے ڈراموں نے نہ صرف معاشرے میں عورت بلکہ آدمی کے کردار کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیلی ویژن کی بطورماس میڈیا اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر پیش کیے جانے والے میڈیا کونٹینٹ کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے۔ایسے ڈرامے پیش کیے جائیں جو لوگوں کو اچھی اقدار سے متعارف کروائیں ۔انھیں زندگی کے مسائل سے مثبت طریقے سے نبٹنا کا سبق دیں اور بہتر معاشرے کا شعور دیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔