ٹی وی پر دیکھائے گئے پرو گراموں کا عام عوام کی زندگیوں پر بہت اثر ہوتا ہے ۔جو کچھ ڈراموں یا فلموں کی صورت میں دیکھایا جاتا ہے عوام اس کے بارے میں بات بھی کرتے ہں اور اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور پسند آنے کی صورت میں تعریف بھی کرتے ہیں۔لیکن ساتھ میں میڈیا پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ صرف صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی انوکھے یا ہٹ کر موضوعات کو سامنے لایا جاتا ہے۔
مائی ری متنازعہ کیوں؟
مائی ری بھی ایک ایسا ہی ڈرامہ رہا ہے۔یہ ایک مشہور لیکن متنازعہ پاکستانی ڈرامہ سیریل ہے۔ مائی ری کی کہانی بچپن کی شادی کے موضوع پر بنی ہے، جہاں دو نوجوان اسکول جانے والے طالب علموں کو ان کے گھر والوں نے شادی کرنے پر مجبور کیا ۔اس میں عائنہ آصف نے اپنے پہلے مرکزی کردار میں اداکاری کی ہے، جس نے پہلی بار ثمر عباس جعفری کے مقابل ایک چائلڈ دلہن کا کردار ادا کیا ہے۔ نعمان اعجاز ، ماریہ واسطی ، مایا خان اور ساجدہ سید معاون کرداروں میں نظر آئے۔ عائنہ ایک 15 سالہ اسکول کی طالبہ ہے۔ وہ اسکول اور گھر میں روزمرہ کے معمولات کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ وہ اپنی والدہ عائشہ کے ساتھ اپنے چچا ظہیر کے گھر رہتی ہے کیونکہ اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے ظہیر نے اس کی شادی اپنے بیٹے فاخر سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ظہیر کی بیوی ثمینہ اس کی مخالفت کرتی ہے اور عائشہ بھی اتنی کم عمر میں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن ظہیر اس شادی پر زور دیتا ہے اور یہ شادی کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ شادی کے بعد، بچوں کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر عائنہ کو اپنے اسکولوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بالآخر اس کی پڑھائی کو متاثر کرتا ہے۔
مائی ری سوشل میڈیا پر زیر بحث کیوں رہا؟
اس ڈرامے نے عوام کی توجہ اس وقت بہت حاصل کی جب یہ دونوں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں لیکن پھر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے لگتے ہیں اور عوام میں اس ڈرامے کے کلپ شئیر کیے جانے لگے اور لوگ ان تمام معاملات کو پسند کرنے لگے ۔ان حالات میں چھوٹی عمر کی شادی کے تقصانات جاننے والے ڈرامے کے رائٹر اور ڈائریکٹر پر تنقید کرنے لگے کہ پاکستان میں پہلے ہی چائلڈ میرجز کا بہت رجحان ہے حالات مزید بُرے تب ہو گئے جب یہ دیکھایا جاتا ہے کہ لڑکی پریگنینٹ ہے اور تب ہی اس ڈرامے کے بارےمیں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ باتیں ہوئیں اور کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کچھ نے اس بات کو اتنا بُرا نہیں سمجھا،لیکن جب ڈرامے میں یہ دیکھایا گیا کہ بچے کی وجہ سے دونوں ماں باپ شدید متاثر ہو رہے ہیں ۔ان حالات نےناظرین کے درمیان مزاحیہ میمز اور مباحثے کو جنم دیا ۔ کچھ نے کہا کہ ان کا بچہ پیزا ڈیلیوری بوائے سے زیادہ تیزی سے پہنچا، جب کہ دوسرے حیران ہوئےکہ اینی اور فاخر کے درمیان ایسا کیسے ہوا کیونکہ ڈرامے میں انہیں کبھی ایک دوسرے کی طرف مائل نہیں دکھایا گیا۔ کچھ مداحوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ “وہ اپنے حمل کی خبر سن کر حیران کیوں ہیں، کیا انہیں اپنی شادی کی تکمیل کا علم نہیں تھا؟ یا انہیں لگتا ہے کہ بچہ پری دے کر جاتی ہے”۔اب جبکہ اس ڈرامے کا اختتام ہو چکا ہے اور ان دونوں کی طلاق پر اختتام ہوا تو ناظرین کو پھر اس کے اختتام پر اعتراز ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہو گئی ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ اس ڈرامے میں طلاق کو سارے معاملے کے حل کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ طلاق مسائل کا حل نہیں ہوتی۔پہلے تو ان بچوں کی شادی نہیں ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی طلاق کو مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں چائلڈ میرج اور طلاق کی بڑھتی شرح
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین میں سے ایک بچی کی شادی 18سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔چھوٹی عمر کی شادی کے نتائج دور رس ہیں اس سے نہ صرف ان بچیوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی پوری عمر متاثر ہوتی ہے۔چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929کے مطابق لڑکوں کی شادی کی قانونی عمر 18سال جبکہ لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 16سال ہے تاہم اس قانون کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔حکومتِ پاکستان نے ایک بل کے ذریعے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر18سال تک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بل نے ابھی تک قانون کی شکل اختیار نہیں کی۔چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ1929کے مطابق 16سال ے کم عمر کی بچی کی شادی میں ملوث افراد پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور ایک مہینے کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے تاہم اس قانون کو لاگو کرنے میں کمزوری دیکھائی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر ایسی شادیاں راز داری میں کی جاتی ہیں اور ان کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔اسی طرح پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران طلاق کی شرح بہت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ایک سروے کے مطابق روزانہ 100 سے150تک کیسز فائل کیے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کہ ذریعے ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا جائے جو عوام میں شعور پیدا کریں اور انھیں بُرے نتائج سے آگاہ کریں تاکہ وہ خود عملی زندگی میں ایسی غلطی نہ کریں جس طرح ڈرامے میں دیکھا یا گیا کہ ایک غلط فیصلہ ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ آنے والے بچے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔یہ بچے اپنی پڑھائی میں پیچھے رہ گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کے روزگار کے مواقع کم ہو گئے اور زندگی ان کے لیے مزید مشکل تب ہو جاتی ہے جب وہ ذہنی اور جذباتی مسائل کے ساتھ جسمانی مائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔