ایک وقت تھا جب ہمارے معاشرے میں طلاق ایک بہت معیوب فعل سمجھا جاتا تھا اور اس کے بارے میں بات بھی کرنی پسند نہیں کی جاتی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں طلاق کی شرح اتنی تیزی سے بڑھی ہے کہ نہ صرف اس پر بات کی جا رہی ہے بلکہ اس کے بڑھتے رجحان کو کم کرنے کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے۔
طلاق میں ڈراموں کا کردار
کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ طلاق کے بڑھتے رجحان میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے جو خواتین میں حقوق کے نام پر عدم برداشت کو بڑھا کر طلاق کی شرح کو بڑھانے کا باعث بن رہا ہے لیکن اب کچھ ایسے پرو گرام بھی ٹی وی چینلز پر دیکھائے جانے لگے ہیں جن میں طلاق کی وجہ بننے والے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بات کی جاتی ہے تاکہ طلاق کے رجحان کو کم کر کے ایک صحت مند معاشرے کو تشکیل دیا جائے۔ایسا ہی ڈرامہ “ایک سو ایک طلاقیں” ہے، جس میں بہت ہی مزاحیہ انداز میں بتایا گیا ہے کہ آج کل طلاق کی وجہ بہت سی معمولی باتیں بھی بن رہی ہیں۔اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کے اُن پہلوئوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے جو طلاق کی وجوہات بنتی ہیں۔ جیسے کہ ساس کا بیٹے کے گھر میں دخل اندازی کرنا، لڑکی کا معمولی باتوں پر شدید ردعمل وغیرہ۔
طلاق میں وکیل کا کردار
عمومی طور پرطلاق کے بڑھتے رجحان میں وکیلوں کو بھی قصور وار ٹھہریا جاتا ہے کہ جب کوئی ا کے اپنے مسائل کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ لوگ مسائل کو ختم کرنے کے بجائے نئے سے نئے کیسز تیار کر لیتے ہیں تاکہ ان کی دکان چلتی رہے لیکن اس ڈرارمہ میں مر کزی کردار ایک وکیل کا ہی ہے جو لوگوں کی طلاق کے فیصلے کو ٹالنے کی کوشش کرنا ہے اور انھیں سمجھاتا ہے کہ اس میں آپ کا بھی کردار ہے اور یہ ایسے مسائل نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر آپ طلاق کا فیصلہ کریں۔اس ڈرامے میں زاہد احمد ایک ایسے وکیل کا کردار ادا کر رہے ہیں جن کے پاس جب کوئی جوڑا طلاق لینے کے لیے کیس کروانے آتا ہے تو وہ شادی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ور اس طرح زاہد احمد اس ڈرامے میں بہت خوب صورت انداز میں ایک وکیل بن کرلوگوں کی شادیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خواتین کی نمائندگی
میڈیا پر الزام ہے کہ وہ خواتین کو خیالی دنیا میں لے کر جاتا ہے اور وہ اسی وجہ سے عملی زندگی میں گھبرا جاتی ہیں اور جلد طلاق کے بارے میں سوچنے لگتیں ہیں۔اس ڈرامے میں خواتین کی نمائندگی اداکارہ انوشے عباسی کر رہی ہیں ۔انوشے عباسی ایک ایسی بیوی کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کو اپنے شوہر سے بہت سے مسائل ہیں اور وہ کافی کوشش کرنے کے باوجود روزمرہ کی لڑائیوں کو روک نہیں پا رہی ہوتی۔انوشے عباسی کی اگر ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو اُنھوں نے 2014 میں شادی کی تھی مگر یہ شادی صرف چھ سال ہی چل سکی۔اس ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ میری ذاتی زندگی کے تجربات نے اس کردارکو ادا کرنے میں بہت مدد کی ہے۔
یہ ڈرامہ ایک مشن لے کر آگے آیا ہے اور ایک مثال بن گیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ جب وہ ان مسائل کے بارے میں سنیں گے جن کا سامنا وہ خود کر رہے ہیں تو وہ اپنے لیے بہتر رہنمائی پا سکیں گے اور تصویر کے دونوں رخ دیکھ سکیں گے اور اس طرح پورے معاشرے پر ایک مثبت اثر پڑے گا جو دور رس ہو گا۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔