بھارت کے سب سے قدیم اور مشہور صنعتی ادارے ٹاٹا گروپ کے مالک رتن ٹاٹا کا بدھ کی رات انتقال ہو گیا۔ انہیں مختلف بیماریوں کے سبب اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں علاج کے دوران انہوں نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ رتن ٹاٹا کا شمار دنیا کے سب سے کامیاب کاروباریوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ٹاٹا گروپ نےبھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنا ڈنکا بجایا۔
رتن کی عمر صرف 10 سال تھی جب اُن کے والدین کی طلاق ہو گئی۔ رتن جب 18 سال کے ہوئے تو ان کے والد نے ایک سوئس خاتون سیمون ڈونیئر سے شادی کی۔دوسری طرف ان کی والدہ نے طلاق کے بعد سر جمسیت جی جی جیبھائے سے شادی کی۔ رتن کی پرورش ان کی دادی لیڈی نواز بائی ٹاٹا نے کی۔رتن سات سال تک امریکہ میں رہے۔ وہاں انھوں نے کارنیل یونیورسٹی سے آرکیٹیکچر اور انجینئرنگ میں ڈگری لی۔ لاس اینجلس میں ان کی اچھی نوکری اور ایک شاندار گھر تھا۔ لیکن اپنی دادی کے اصرار پر انھیں بھارت واپس آنا پڑا۔ان کی امریکی منگیتربھی ان کے ساتھ بھارت آئی تھی لیکن وہ یہاں کی زندگی سے ہم آہنگ نہ ہو سکی اور واپس امریکہ چلی گئی۔ رتن ٹاٹا ساری زندگی غیر شادی شدہ رہے۔
سنہ 1962 میں رتن ٹاٹا نے ٹاٹا سٹیل میں کام کرنا شروع کیا۔انھوں نے شروع میں اپنی انٹرن شپ ایک دکان میں فلور ورکر کے طور پر نیلے رنگ کا لباس پہن کر کی۔ اس کے بعد انھیں پروجیکٹ مینیجر بنا دیا گیا۔ بعد میں وہ منیجنگ ڈائریکٹر کےسپیشل اسسٹنٹ بن گئے۔اس کے بعد انھوں نے ایک سال تک آسٹریلیا میں کام کیا۔ وہاں انھیں خسارے میں چل رہی کمپنیوں کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔رتن کی قیادت میں تین سال کے اندر بیلکو (نیشنل ریڈیو اور الیکٹرانکس) نے منافع کمانا شروع کر دیا۔ 1981 میں رتن کو ٹاٹا انڈسٹریز کا سربراہ بنا دیا گیا۔حالانکہ اس کمپنی کا ٹرن اوور صرف 60 لاکھ تھا لیکن یہ ذمہ داری اہم تھی کیونکہ اس سے پہلے ٹاٹا خود اس کمپنی کے کام کاج کو براہ راست دیکھتے تھے۔رتن ٹاٹا2012 تک ٹا ٹا کمپنی کے چیئرمین بنے رہے۔
رتن ٹاٹا اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ عطیہ کر دیاکرتے تھے۔ وہ اپنی دریادلی کیلئے مشہور تھے۔ اوربھارت کےسرفہرست عطیہ دہندگان میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ٹاٹا ٹرسٹ کو عطیہ کیا کرتے تھے، یہ ٹاٹا ٹرسٹ ہولڈنگ کمپنی کے تحت فرموں کے ذریعہ کی گئی کل کمائی کا 65فیصد حصہ دیتا ہے۔ وہ نہ صرف سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بلکہ اقتصادی مسائل سے پریشان طلبہ کی مدد کیلئے بھی وہ ہمیشہ تیار رہتے۔ ان کا ٹرسٹ مالی طور پر کمزور طلبہ کو اسکالرشپ دیتا ہے، جس کی مدد جے این ٹاٹا انڈومنٹ، سر رتن ٹاٹا اسکالرشپ اور ٹاٹا اسکالرشپ کے ذریعہ کی جاتی ہے۔
اپنے کاروبار اور فلاحی خدمات میں اعلیٰ ورثہ چھوڑنے کے باوجود رتن ٹاٹا نے شادی نہ کی ۔ان کی زندگی میں بیوی یا خاندان نہ ہونے کا کیا اثر رہا تھا، اس سے متعلق بات کرتے ہوئے رتن ٹاٹا نے اعتراف کیا تھا کہ “کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے بیوی یا خاندان نہ ہونے کی وجہ سے تنہائی محسوس کی، اور کبھی کبھی خاندان کے ہونے کی خواہش کرتا ہوں۔جب رتن ٹاٹا سے پوچھا گیا کہ انہیں شادی سے کس چیز نے روکا، تو انہوں نے اس کی مختلف وجوہات بتائی تھیں، جن میں وقت کا مسئلہ اور ان کا کام میں ڈوبا رہنا شامل تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی میں ایک سلسلہ وار چیزیں تھیں جو مجھے شادی سے روکتی رہیں، وقت کم تھا اور کام میں مگن تھا، میں نے کئی مرتبہ شادی کرنے کی کوشش بھی کی مگر پھر بھی نہیں کرسکا۔
خیال رہے کہ ٹاٹا گروپ کی 30 کمپنیاں، 6 برِاعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک میں موجود ہیں، ان کے گروپ کی مالیت 1013 کھرب روپے ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی سے کہیں زیادہ ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔