برونائی کے سلطان حسن البلقیہ کے دسویں بیٹے شہزادہ عبدالمتین نے 7 جنوری کو شروع ہونے والی ایک تقریب میں انیشا روسنا عیسیٰ کلیبک سے نکاح کیا۔ ایشیا کی مقبول ترین شاہی شخصیات میں سے ایک برونائی کے شہزادہ عبدالمتین نے اپنی منگیتر سے 10 روزہ تقریب میں شادی کی۔32سالہ شہزادہ عبد المتين رسمی یونیفارم میں ملبوس تھے اور ان کی 29 سالہ دلہن نے استانہ نورالایمان محل میں ہونے والی تقریب کے لیے لمبا سفید لباس اور زیورات پہن رکھے تھے۔شادی کے 5000 مہمانوں میں سعودی عرب اور اردن کے شاہی خاندان کے علاوہ انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو اور فلپائن کے رہنما فرڈینینڈ مارکوس جونیئر شامل تھے۔جب شاندار شاہی جلوس دارالحکومت بندر سیری بیگوان سے گزرا تو نئے شادی شدہ جوڑا رولز روئس گاڑی سے ہزاروں لوگوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے پہلی بار منظرعام پر آیا۔
شہزادہ عبد المتین کی وجہ مقبولیت کیا ہے؟
بتیس سالہ شہزادے، جنہیں کبھی ایشیا کے سب سے قابل کنواروں میں سے ایک کہا جاتا تھا دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک سلطان حسن البلکیہ کے چوتھے بیٹے اور دسویں بچے ہیں ۔تخت نشینی کی قطار میں چھٹے نمبر پر ہونے کے باوجود شہزادے نے حالیہ برسوں میں اپنے والد کے ساتھ سفارتی مصروفیات میں شہرت حاصل کی ہے۔وہ پولو کھیلنے کے شوقین ہیں۔شہزادہ عبدالمتین کے انسٹاگرام پر 2.5 ملین فالوورز اور ٹک ٹاک پر ہزاروں فالورز ہیں۔جب نئے سال کے ابتدا پر شہزادے نے اپنی ہونے والی دلہن کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر لگائی تو ان کے کچھ مداح یہ دیکھ کر مایوس ہوئے۔ایک فالوور نے لکھا ’2024 کا آغاز ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ہوا۔‘ ایک اور فالور نے مزاح میں شہزادے کو ’عالمی سطح پر دلوں کو توڑنے والا‘ کہا۔وہ ملک کی فوج میں ہیلی کاپٹر پائلٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میڈیا میں ان کا موازنہ برطانیہ کے شہزادہ ہیری سے بھی کیا جاتا رہا ہے۔عبد المتین برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی میں آفیسر کیڈٹ رہ چکے ہیں۔ وہ 2019 میں ساؤتھ ایشین گیمز میں برونائی کی نمائندگی کر چکے ہیں۔جبکہ دلہن انیشا ایک فیشن برانڈ اور سیاحت کے کاروبار کی مالک ہیں اور ان کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتیں۔
برونائی دارالسلام کی وجہ مقبولیت
برونائی میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو اس انتہائی کم آبادی والے ملک کے دولت مند ہونے کی وجہ ہیں۔جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کے شاہی خاندان کے 14ویں صدی میں مسلمان ہونے سے قبل یہاں ہندو اور بدھ مت مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔انیسویں صدی میں برطانوی راج کے بعد برونائی کو باقاعدہ آزادی 1984 میں آزادی ملی تھی۔دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل برونائی کی آبادی لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق ملک کی جی ڈی پی کی اوسط کے مطابق فی شخص ماہانہ آمدن لگ بھگ تین ہزار ڈالر ہے۔برونائی کو اپنی معیشت کا دار و مدار تیل پر کم کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ برونائی کے56 برس کے سلطان حسن بلقیہ دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔ البتہ اب ان سے یہ اعزاز دنیا کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان چھین چکے ہیں ۔اس چھوٹے سے ملک میں ایک شاہی تقریب پر انتہائی زیادہ اخراجات یہاں کی امارات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔سلطان کے پاس شاندار اور اعلیٰ گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جب کہ ان کی دریا کے کنارے بنی سرکاری رہائش گاہ اب بھی دنیا کے بڑے محلات میں شمار ہوتی ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔