خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں لیکن جب ہم ان کی ترقی کے گراف کو دیکھیں تو وہ ہمارے معاشرے کا ایک پسماندہ ترین طبقہ ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طاقتور اور مستحکم عورت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے تو غط نہ ہو گا۔خواتین کی ترقی کا گراف بتا تا ہے کہ ہماری خواتین میں صرف 13 فیصد کے پاس بینک اکائونٹ ہے۔جائیداد میں حصہ انھیں نہیں ملتا۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انھیں پائوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا سب سے بڑھ کر انھیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا بھی حق نہیں ہوتا۔
ہمارے گھروں میں لڑکے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ایسے امتیازی رویے معاشرے میں ایک غیر متوازن ماحول بنا رہا ہے جس میں عورت کا کردار صرف ایک خدمت گار کا ہے اور اس کے حصے میں صرف فرائض ہی آتے ہیں حقوق نہیں۔ اس پر سوائے افسوس کے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ خواتین گھر اور باہر، بدترین تشدد کا شکار ہو رہی ہیں، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔تعلیم کے حصول کیلئے طالبات کو آمد و رفت کے مسائل درپیش ہیں۔ لڑکیوں کو روایتی کورسز میں داخل کروایا جاتا ہے جبکہ سپیس سائنسز جیسے شعبوں میں طالبات کی تعداد کم ہے، ہمارے رویوں کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کا استحصال ہو رہا ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل
ملازمت کے دوران خواتین کی کم تنخواہ، ہراسمنٹ و دیگر مسائل ہیں، سماجی رویے بھی امتیازی ہیں۔عورت کی حالت کو گھر سے بہتر کرکے، اسے معاشی دھارے میں لاناچاہیے، اچھی زندگی اور اپنی خواہشات کی تکمیل عورت کا حق ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو آمد و رفت‘تنخواہ اور دوران زچگی چھٹیوں کا مسئلہ ہے، جینڈر فرینڈلی ماحول کا نہ ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی جاگیردارانہ نظام ہے۔ وہی پرانی سوچ ہمارے نظام میں کارفرما ہے۔
نامساعد حالات اور مشکلات کے باجود خواتین اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے دنیا کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ پاکستانی عورت خاموش نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا اور بھرپور جدوجہد کرنا جانتی ہے۔ریاست کو معلوم ہے کہ کہاں کہاں فیکٹریاں موجود ہیں اور کہاں خواتین کام کر رہی ہیں لہٰذا ان تمام فیکٹریوں کو وویمن فرینڈلی بنایا جائے۔ خواتین کی معاشرے میں دوہری ذمہ داریاں ہیں، گھر بھی اور ملازمت بھی۔ گھر ان کیلئے سکون کی جگہ ہے، خواتین کے گھر ٹوٹنے نہیں چاہیے، ریاست اس میں کردار ادا کرے، گھر کی چار دیواری میں بھی انہیں تحفظ فراہم کرے، خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
ڈیجیٹل ہراسانی
ڈیجیٹلائزیشن کے بعد اب ہمارے پاس دو طرح کی دنیا ہے،ایک حقیقی دنیا اور ایک ڈیجیٹل دنیا۔ حقیقی دنیا تو صدیوں سے موجود ہے جس میں خواتین کا بدترین استحصال ہو رہا ہے، ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، ان کیلئے سپیس کم ہے اور ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ بدقستی سے یہی مسائل ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہوگئے جن کے باعث خواتین کو وہاں بھی بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آن لائن دنیا میں تنگ کرنا حقیقی دنیا کی نسبت آسان ہے۔انٹرنیٹ پر لوگ اپنی شناخت چھپا کر کسی کو بھی تنگ کرتے ہیں، ہراساں کرتے ہیں، آن لائن سٹالکنگ کرتے ہیں، کمنٹس میں تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ وہ افسوسناک رویے ہیں جن کا سامنا خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں ہو رہاہے۔ ہمارے ہاں ہر چھوٹے مسئلے کے لیے بھی قانون موجود ہے مگر عملدرآمد کا مسئلہ ہے جس کے باعث حالات تاحال سازگار نہیں ہوسکے۔ 2016ء میں سائبر کرائم ایکٹ آیا مگر ابھی تک لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے جس وسیع پیمانے پر کام ہونا چاہیےتھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا، انہیں آگاہی نہیں دی گئی ۔ جب کسی کو اپنے حق اور اس سے متعلقہ قانون سازی کے بارے میں علم نہیں ہوگا وہ کس طرح اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
سیاسی پسماندگی
یہ رویے سیاسی جماعتوں میں بھی نظر آتے ہیں، انتخابات میں خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کا قانون ہونے کے باوجود مسائل ہیں، انہیں لیڈنگ رول نہیں دیاجاتا۔ افسوس ہے کہ خواتین خود بھی فرسودہ نظام کو فروغ دے رہی ہیں، لڑکے کو زیادہ اہمیت دے کر، لڑکی سے امتیازی سلوک رکھ کر، اس کے حقوق صلب کرکے مسائل کو بڑھاوا دے رہی ہیں، خواتین کو خود اس رویے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، انہیں گھر سے تربیت کا انداز بدل کر آنے والی نسلوں کیلئے ملک کو بہتر بنانا چاہیے۔
خواتین کو اپنے جن حقوق کا علم ہے،انہیں اس کے حصول میں بھی مسئلہ ہے، سائبر اور ڈیجیٹل دنیا کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ ریاست کو اپنا درست کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اگر خواتین کو صحیح معنوں میں ایمپاور نہ کیا گیا، ان کے حقوق نہ دیے گئے، ان سے امتیازی سلوک رکھا گیا، ان کا استحصال کیا گیا تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ ریاست سمیت سب کو اپنے رویے تبدیل کرنا ہونگے۔ہمارے ہاں خواتین کو درپیش مسائل کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی رویوں کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور ایسے مختلف سٹرکچرز موجود ہیں جنہیں ٹھیک کرنا خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ہمارے ہاں سوشل ایمپاورمنٹ پر جو کام ہو رہا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے،اگرچہ اس سے کچھ نہ کچھ فرق تو پڑ رہا ہے لیکن اگر مسائل کی شدت دیکھیں تو یہ کام کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے آئینی، قانونی اور سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچ، نظریات اور رویوں میں ایسی تبدیلی لانی ہے جو اداروں، گھروں اور معاشرے میں نظر آئے، صرف اس صورت میں ہی خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔