خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس سے قبیلے، برادریاں، معاشرے اور قومیں بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ خاندان فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود، شخصیت کی نشوونما اور ترقی کا ذمہ دار ہے۔خاندان کی بنیاد شادی کے رشتے پر ہے۔ہمارے معاشرے میں مذہبی تعلیمات بڑے پیمانے پر ازدواجی معاملات میں شامل ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو طلاق کا راستہ اختیار نہ کرنے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کا درس دیتا ہے لیکن پھر بھی طلاق کی شرح دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہے۔ہمارے معاشرے میں طلاق کی مختلف وجوہات کیا ہیں آئیے بات کرتے ہیں۔
جبری شادیاں
ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی بڑی وجہ جبری شادیاں ہیں۔ جہاں شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور ہوتی بھی ہے تو ان میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ زندگی کے اہم پہلوؤں اور معاملات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا جائے۔
جوائنٹ فیملی
اس ہی رپورٹ کے مطابق ناکام شادی کے اہم محرکات میں سے ایک پورے خاندان کے ساتھ رہنے کا روایتی طریقہ اکثر جھگڑوں اور لڑائیوں کا سبب بنتا ہے جو میاں بیوی کے معاملات کو طلاق کی نہج پر پہنچا دیتا ہے۔میاں بیوی کے آپسی معاملات میں لڑکا لڑکی کے خاندان والے دوست احباب ان میں مداخلت اپنا فرض سمجھتے ہیں، جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے اور غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہے۔
گھریلو تشدد
بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی، رپورٹ کے مطابق طلاق کے بڑھتے اعداد وشمار کی ایک اور وجہ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ بھی ہے۔ہمارے معاشرے کے ہر طبقے کی عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر زیادتی کو برداشت کرے اور جائز و ناجائز بات پرعمل کرے۔ یہ رویہ اور سوچ زبانی، جسمانی اور ذہنی تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نوبت رشتہ ختم ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔
آپسی چپقلش
شادی کے بعد آدمی کو یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آپ نے اگر ایک ملازمت پیشہ خاتون سے شادی کی ہے، تو اس کی جاب کے مسائل بھی آپ کی نوکری میں پیش آنے والے چیلنجوں اور مسائل کی طرح ہیں۔لہٰذا آپ اس خاتون سے حاسد اور الجھنے کے بجائے اس کو ایک دوسرے کے دفتری معاملات اور امور میں دوست بنائیں۔ ایک کام کرنے والی عورت ایک گھریلو خاتون کے مقابلے میں تنظیمی امور میں زیادہ ماہر ہوتی ہے۔ ایک شریک حیات، جو دفتری سیاست کو سمجھتی ہے وہ آپ کو اچھا مشورہ دے سکتی ہے ۔مالی طور پر خودمختار شریک حیات مالی معاملات میں اپنے ساتھی کو بہتر مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ معیار زندگی بہتر بنانے میں مرد کی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔بچوں کے حوالے سے بھی مثبت پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک کام کرنے والی عورت کے بچے زیادہ خودمختار اور منظم ہوتے ہیں۔
گھر کے ہر فرد کی اور رشتے کی طرح اپنی شریک حیات اور اس کے کام اور رجحانات کو بھی عزت، محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کو روکنے اور کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شریکِ حیات کی کام یابی پر حسد کرنے کے بہ جائے اس پر خوش ہونا اور عزت دینا سیکھنا ہوگا اور ساتھ ہی دیگر عوامل پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔