ڈیرہ اسماعیل خان میں غیر قانونی پنچایت کا غیر قانونی فیصلہ قبول نہ کرتے ہوئے باپ نے بیٹی کو ونی ہونےسے بچانے کے لیے جان دے دی۔ پنچایت کے چار ارکان کو بیٹی کو ونی کرنے کا ذمے دار بھی قرار دے دیا۔ آڈیو پیغام میں کہاکہ ان کے ساتھ زيادتی کی گئی زبردستی اسٹامپ پیپر پر دستخط کراکر فیصلہ تھوپا گیا، بس بیٹی بچ جائے، وہ اپنی بیٹی پر قربان ہورہاہے۔آڈیو پیغام میں بچی کے والد نے مزید بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ بھانجے سے طے کر رکھا تھا، پنچایت نے لڑکی کو ونی کی سزااس کے منگیتر کی طرف سے کسی اور لڑکی سے رابطے کرنے پر سنائی، دوسری لڑکی کے والد نے 7 لاکھ جرمانہ وصول کیا اور بدلے میں لڑکی بھی مانگی تھی۔خودکشی کرنے والے شخص کا آڈیو نوٹ وائرل ہونے پر حرکت میں آگئی، پولیس نے پنچایت کے 3 ارکان گرفتار کرلیے جبکہ چوتھا فرار ہوگیا۔
ونی یا سوارا پاکستان کے بعض حصوں میں بطور رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس میں عورت کو سزا کے طور مخالف فریق کے حوالے کر دیا جاتا ہے جس میں جبر و دھونس سے بچیوں کو مخالف فریق کے فرد سے، خواہ وہ عمر رسیدہ ہی کیوں نہ ہو، شادی کرا دی جاتی ہے۔ ونی پنجابی یا پشتو زبان کا حرف ہے جو ونے سے نکلا ہے جس کے معنی خون ہے۔ اور اس پر دیہاتوں میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ونی کی رسم کو بہت پرانا سمجھا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ تقریباً چار سو سال پرانی رسم ہے جس کے مطابق میانوالی کے پٹھان قبائل کے درمیان خون ریز جنگ کے نتیجے میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل ہوئے۔ اس لڑائی کے مسئلے کو نواب آف ٹانک نے جرگہ کے ذریعے صلح کی کوشش کی اور اس جرگے کے فیصلے کے مطابق عورتوں کو قصاص کے طور پر دوسرے فریق کو دیا گیا۔ بعد میں اس فیصلے کے زیر اثر اثرات سے ونی رسم کی ریت معاشرے میں چل نکلی اور صدیوں سے نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت 2011 ء میں ونی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ قبیح رسم اب بھی جاری و ساری ہے۔
اس قبیح رسم کے خاتمے کے لئے کوئی عملی صورت ابھی تک نظر نہیں آئی بلکہ سب زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ اس میں تمام سیاسی پارٹیاں، افسران، عدلیہ، پولیس اور سب ادارے مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ لوگ بھی مصلحت کا شکار ہوتے ہیں۔ مرد کے کیے گئے جرم کی سزا عورت ذات ساری عمر بھگتی ہے۔ ایسے کئی کیس ہیں جن میں پولیس کا رویہ قابل مذمت تھا۔ ان کیسوں میں نہ تو کوئی ایف آئی آر دائر کی گئی اور نہ ہی مظلوموں کا کوئی پرسان حال تھا۔اخبارات ایسے کیسوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں ابتدائی طور پر پولیس کا رویہ قابل مذمت تھا۔ میڈیا کے ان کیسوں کو دنیا کے سامنے لانے پر مجبوراً پولیس کو تفتیش کا عمل شروع کرنا پڑا اور اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا اب دیکھنا یہ ہے اس قبیح رسم کو عملی طور پر ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔یہ رسم ایک بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ جو خاتون ونی کی جاتی ہے اس کی حیثیت ایک بھیڑ بکری سے بھی کم رہ جاتی ہے۔اسی ظلم سے بچانے کے لیے ایک باپ نے اپنی جان دی کہ شاید اسے انصاف مل جائے۔آخر کب تک ماں باپ اپنی بیٹیوں کی زندگی کے لیے جان دیتے رہیں گے اور اس رسم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔

عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔