ہر انسان کو اپنی زندگی اپنے انداز سے جینے کا حق ہے ایسے میں کچھ معاشرتی رویے ایسے بھی ہیں جو کسی بھی انسان کی زندگی مشکل بنانے میں اپنا پورا کردار ادا کرتے ہیں اور جان بوجھ کر یا انجانے میں کچھ ایسی باتیں ہم سے ہو جاتی ہیں جو مشکل سے لڑتے ہوئے فرد کے لیے مزید حالات مشکل کر دیتی ہیں۔
شادی ہمارے معاشرے میں بہت اہم موضوع ہے جیسے”شادی نہیں کر رہے”؟شادی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی”؟چھوٹے بھائی یا بہن کی پہلے کیوں ہو گئی”؟جہیز میں کیا کیا دیا جا رہا ہے”؟شادی اتنی سادی کیوں کی”؟۔ایسے سوالوں کے ذریعے ہم دوسروں کی زندگی مشکل بنانے میں کردارادا کر رہے ہوتے ہیں۔یہ سوال خواتین کے لیے خاص طور پر زیادہ مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔وہ لڑکیاں جن کی شادی جلدی نہیں ہو پاتی یا چھوٹی بہن کی شادی پہلے ہو جائے تو سوال تو سوال لوگوں کی نظریں بھی ان کو چھبتی ہیں کیونکہ لوگوں کے سوال ان کی خود اعتمادی ختم کر دیتے ہیں اور مایوس ہو کر انکا زندگی پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور وہ مختلف جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پھر شادی ہو جائے تو بچوں پر سوال شروع ہو جاتے ہیں”ابھی کوئی خوشخبری نہیں سنائی”؟بچوں کا کب تک ارادہ ہے”؟کوئی مسئلہ ہے”؟کس میں ہے”؟کسی ڈاکٹر کو چیک کروایا”؟کوئی ٹوٹکا کیا”؟”فلاں فلاں کو دیکھایا”؟ویسے تو ماہرین عمرانیات کی یہ رائے ہے کہ شادی صرف دو لوگوں کی زندگی کا مسئلہ نہیں ہوتی بلکہ آنے والی نسل کی زندگی کا بھی سوچنا پڑتا ہے اس لیے پہلے ایک دوسرے کو اچھے طرح سمجھا جائے اور باہمی رضامندی کے ساتھ خاندان کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ ایک بہتر نسل تیار ہو سکے ورنہ آجکل تو یہ حالات ہو رہے ہیں کہ پہلے سال میں ہی لڑائیاں شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن آنے والی نسل کا کیا ہو گا جبکہ آدمی اور عورت دونوں نیا گھر بسا کر نئی زندگی شروع کر دیتے ہیں۔
شادی ہو جائے اولاد ہو جائے اور میاں بیوی خوش و خرم رہ رہے ہوں لیکن سوالات پھر بھی ختم نہیں ہوتے۔”بچے کو یہ کیوں نہیں کھلاتے”؟بچے کو اس سکول میں کیوں داخل نہیں کروایا”؟”مزید بچوں کا ارادہ نہیں”؟وغیرہ وغیرہ۔ شادی اور اولاد سے ہٹ کر بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا ہمارے معاشرے میں واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔یہ سوالات کچھ بہتری کرنے کے بجائےاکثر مسائل کا شکار افراد کو مزید مسائل میں مبتلا کر دیتے ہیں جیسے اگر کسی کی طلاق ہو جائے تو ایسے افراد لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ ہر کسی کے سوالات کے جوابات دے کر ان حالات کو دوبارہ نہیں سوچ سکتے جن سے نجات کے لیے انھوں نے علیحدگی اختیار کی۔اس لیے کوشش کریں کہ مسائل میں گھرے لوگوں سے تکلیف دینے والے سوالات کرنے کے بجائےاگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی حقیقت میں مدد کریں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔