پاکستان جیسے مشرقی معاشرے میں شادی کا ذہن میں آتے ہی بے تحاشا اخراجات کا خیال آتا ہے جو ایک متوسط طبقے کے شخص کی کمر توڑ دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ساری عمر شادی کے نام پر ایک ایک پیسہ جوڑا جاتا ہے اور ایک ہفتے میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ ڈھول ، بینڈ باجے، لائوڈ میوزک ، جگمگاتی روشنیاں ، رنگ برنگ کھانوں کی خوشبوئیں ، گلی محلوں میں پھیلی ہوئی رونقیں بہت پرکشش معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ بازاروں میں بھی چیزوں کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جتنی ذیادہ برادریاں ہوتی ہیں ، اتنی ہی رسوم و رواج اور کئی اقسام کی روایات شادی سے منسلک ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایک دلچسب عنصر یہ بھی ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی پر اخراجات کی لمبی چوڑی فہرست بنا لیتے ہیں جن میں سے اکثرغیرضروری اخراجات ہوتے ہیں۔ اولاد کی شادی کی منصوبہ بندی لمبے عرصے تک کی جاتی ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگ تو بڑی مشکل سے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ پاتے ہیں تو وہیں بعض ایسے طبقے ہوتے ہیں جو شادی پردل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔
شادی کی تمام ضروری اور غیر ضروری رسومات پر اندھا دھند پیسہ خرچ کرنا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی لازمی جز نہیں ہے۔ امیر طبقے کے شوق کی قیمت غریب اور متوسط طبقے کو چکانا پڑتی ہے۔ مہنگے ملبوسات ، بھاری زیور ، پالکیاں اور شاندار فوٹو شوٹس امیروں کے شوق کی چھوٹی سی جھلک ہوتی ہے۔ اور پھرایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سبھی اسی ڈگر چل پڑتے ہیں لیکن فرق یہ نظر آتا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ پر برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں وہ شادی کے بعد معمولی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے اور قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔وہی زیور جو بڑے ارمانوں سے بنایا گیا ہوتا ہے بہت جلد گھر کے مسائل کم کرنے کے لیے بیچنا پڑ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور اگر پیسے خرچ کرنے ہی ہیں تو وہ شادی سے پہلے کیوں خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ان پیسوں کی ضرورت شادی کے بعد زیادہ ہوتی ہے۔شادی کے بعد ہنی مون ،پھر اپنا گھر بنانا،خاندان بڑھانا اوربڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ آمدن کے نئے ذرائع ڈھونڈنا، یہ سب حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک اچھی زندگی کی بنیاد رکھنی ہے تو شادی کی بے جا رسومات پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے پیسوں کو شادی کے بعد کے حالات کے لیے بچا کر رکھا جائے۔یہ فضول نمائش اور دکھاوا صرف اور صرف ذہنی بوجھ اور مالی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ شادی ایک اہم فریضہ ہے ، انتہائی ضروری اخراجات کو پورا کرتے ہوئے بھی یہ فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
ان تمام باتوں پر عمل کر کے ایک پرامن اور سلیقہ شعار معاشرے کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے جہاں افراد ذہنی الجھنوں اور تناو سے محفوظ رہ سکیں۔ زندگی سادگی سے بھی گزاری جاسکتی ہے، فطرت بہت سادگی پسند ہے لیکن ہم نے اپنی زندگیاں اپنے ہاتھوں مشکل بنارکھی ہیں۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہم ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔