اسلامی سال کے 12 مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور ناکام ازدواجی زندگی کا پیش خیمہ ہو۔ نیک فالی یعنی کسی سے اچھا گمان کرنے اور نیک فال لینے کی تو گنجائش ہے لیکن شرعاً بدفالی و بدشگونی جائز نہیں ۔ یہ چیز اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عام تھی۔ غیر مسلم معاشرہ میں آج بھی بد فالی اور بد شگونی اور نحوست کا تصور عام ہے اور بد قسمتی سے مسلم معاشرہ بھی اس سے پاک نہیں ۔ آج بھی بے شمار نادان لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ جیسی مسنون تقریب سے گریز کرتے ہیں جو کسی طرح درست نہیں ۔ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اس تصور کو باطل قرار دیا۔
زمانۂ جاہلیت میں کفارِ مکہ ماہ صفر کو نحوست والا مہینہ سمجھتے تھے ۔ کسی وقت اور زمانہ کو برا سمجھنا اور اسے منحوس جاننا اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے ۔ آج بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس جان کر اس میں شادی بیاہ یا کسی خوشی کی تقریب سے گریز کرتے ہیں ، اسی طرح ماہ محرم کو واقعۂ کربلا اور شہادت حسینؓ کے پس منظر میں غم اور سوگ کا مہینہ تصور کرتے ہیں چنانچہ اس مہینہ میں بھی اور خاص طورپر عاشورۂ محرم کو شادی بیاہ کی تقریب اور محفل نکاح سجانا برا مانتے ہیں جبکہ شرعاً اس کی کوئی حیثیت اور سوگ کا ایسا کوئی تصور نہیں۔ شریعت میں کسی کے انتقال پر سوگ کی مدت صرف3 دن ہے، سوائے بیوہ عورت کے کہ شوہر کے انتقال پر اس کیلئے سوگ کی مدت 4 ماہ10 دن ہے ( یا اگر وہ حاملہ ہوتو وضع حمل )۔ محرم میں سوگ کے طورپر یا ماہ صفر کو منحوس جان کر ان مہینوں میں نکاح سے گریز کرنا ، ایسے نکاح سے بد فالی لینا اوراسے مستقبل میں ناکامی یا ناخوشگوار حالات سے دوچار ہونے والا خیال کرنا اِسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ، اس بد عقیدگی سے اپنے ذہن و دماغ کو پاک رکھنا از حد ضروری ہے ۔
عربوں میں نحوست کے تصور کے باوجود ماہ صفر میں نکاح کے حوالے سے کوئی بات نظر سے نہیں گزری البتہ ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ شوال میں نکاح کو پسند نہیں کیا جاتا تھا اور اس لفظ کے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بد فالی لی جاتی تھی( اس کے معنی میں ٹوٹ پھوٹ اورلڑائی کیلئے ہتھیار اُٹھانے کا مفہوم شامل ہے )۔ اس خیال کی تردید میں اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ” رسول اﷲنے مجھ سے شوال میں شادی فرمائی ، میری رخصتی بھی شوال میں ہوئی ، پھر رسول اﷲ کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون تھی ؟” ( مسلم )۔اہل عرب شوال میں نکاح کرنے کو یا شوال میں رخصتی کراکر دلہن گھر لانے کو برا سمجھتے تھے اور بدفالی لیتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیسے ہوتی ؟
الغرض ماہ صفر کو منحوس سمجھنا یا ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ خیال کرنا اور ان میں شادی بیاہ کو برا جاننا ، اس سے بدشگونی لینا کسی طرح جائز نہیں بلکہ ایک حدیث میں بدشگونی کو ’’ شرک ‘‘ تک کہا گیا ۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔