پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح یہاں بھی پائیدار ترقی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔بطور معاشرہ ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم پائیدار ترقی کی اہمیت کو نا سمجھ لیں۔یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرنا سیکھیں۔ جب وسائل کی بات کی جائے تو برصغیر پاک و ہند میں وسائل کاسب سے زیادہ استعمال شادیوں کے موقع پر کیا جاتا ہے اور اس کی مثال مشہور زمانہ”امبانی میرجز”سے دی جا سکتی ہے۔ایسی مثالوں پر عمل کرتے ہوئےلوگ جب تک اپنی حیثیت سے بڑھ کر نہ خرچ کر لیں انھیں سکون نہیں ملتا۔یہ اور الگ بات ہے کہ ایسی شادی کے “سائیڈ افیکٹس”دلہا دلہن عمر بھر بھگتے ہیں۔
زندگی میں پائیداری اور بچت کا تعلق
انسان جب دنیا میں آیا تو اس زمین پر لا محدود وسائل پائے جاتے تھے لیکن پھر آبادی بڑھنے اور وسائل کے بے جا استعمال نے وسائل کا ایک نیا بحران پیدا کر دیا۔اب دنیا کا امیر سے امیر باشعور شخص اپنے کپڑوں اور دیگر لوازمات کے ذریعے وسائل کے درست استعمال کا درس دیتا نطر آئے گا جو ہماری شادیوں میں نا پید ہے۔
مستقبل کے لیے بچت کی اہمیت
ہر وہ شخص جو زندگی گزار رہا ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ ایک مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے وہ یقیناً بچت کے بارے میں بھی سوچے گا۔وہ موجودہ دور میں تھوڑی سختی اس لیے برداشت کرے گا تاکہ اس کا مستقبل بہتر ہو سکے ۔ ایک شادی کرنے والے شخص کی بھی یہ ہی سوچ ہونی چاہیے کہ وقتی نمودونمائش کے بجائے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔اور وہ پیسہ جو شادی کی بے جا رسومات پر خرچ ہو اسے کسی بہتر کام کے لیے استعمال کیا جائے۔
وسائل کا بہتر استعمال
ہمارے ہاں ایک روایت بن گئی ہے کہ بچوں کی شادی کے لیے بچپن سے ہی بچت شروع ہو جاتی ہے جبکہ وہ ہی پیسے اگر لڑکی کی تعلیم یا کسی کاروبار میں لگا دئیے جائیں تو ایک بہتر مستقبل کی امید کی جا سکتی ہے۔لیکن ہماری یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ عمر بھر کی بچت کو تین دن میں اُڑا دیا جائے اور شادی بے شک ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ایک مہینے میں ختم ہو جائے اوربعد میں قرض پر ہی گزارا ہو لیکن اس وقت خاندان میں”ناک” رکھنی ضروری ہوتی ہے۔
لمبی مدت کی پلاننگ کریں
ہمارے ہاں شادی کرنے کے روائتی طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہوں یا نہ ہوں،حتیٰ کہ بعض اوقات ایک دوسرے کو حقیقی زندگی میں دیکھا بھی نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ مطابقت کا بھی خیال نہیں کیا جاتا اور طلاق کی شرح برھتی ہی جا رہی ہے لیکن پھر بھی زندگی کی ساری جمع پونجی فضولیات پر لگا دی جاتی ہے ۔اس کے بجائے اگر مستقبل کے بارے میں سوچا جائے تو بہت سے لوگوں کی زندگیاں بہتر ہو سکتی ہیں۔
چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لائیں
چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ہمیں سادگی کی اہمیت سمجھنی ہو گی۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ” امبانی” جیسی شادی کرنے سے پہلے ہمیں خود امبانی بننا پڑے گا۔شادی کی تقریب اتنی اہم نہیں جتنی اس شادی کی کامیابی ضروری ہے۔اور اس کامیابی کے لیے ایک پائیدار منصوبہ بندی کے ساتھ پائیدار مستقبل کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔