بہار کی آمد کو تاریخی طور پر کافی اہمیت حاصل رہی ہے، زمانہ قبل از مسیح میں جب شدید سرد موسم کے بعد بہار کی آمد ہوتی تو لوگ سمجھتے کہ ان کی دیوی اب ان سے خوش ہو گئی ہے لہذا اسی لیے نہ صرف اب موسم بہتر ہونا شروع ہو گیا ہے بلکہ فصلیں بھی اگنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں زیادہ تر تاریخی تہوار موسم بہار کے ارد گرد ہی منانے کو ملتے ہیں جیسا کہ جشن نوروز، بسنت، ہولی، چترال کا چلم جوش تہوار وغیرہ وغیرہ۔
پرندوں کی چہچہاہٹ، باغات کے دلفریب مناظر، سہانا موسم، سرسبز میدان، درختوں پر نیلے پیلے رنگا رنگ پھول اور خوشگوار فضا۔ یہ ہے موسم بہار کی آمد جو اپنے ساتھ بیشتر امیدیں ساتھ لاتی ہے اور جسے دنیا بھر میں بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔چونکہ ایک طویل سخت جاڑے کے موسم کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے لہذا ہر طرف ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گویا زندگی واپس لوٹ آئی ہو، ہجرت کیے ہوئے پرندے گھروں کو لوٹتے ہیں، پہاڑوں نے جو سفید چادر اوڑھی ہوتی ہے وہ بھی کہیں بکھرنے لگتی ہے اور دوبارہ ہر طرف سبزہ پھیل جاتا ہے۔ موسم بہار کی آمد کا تذکرہ ہو اور شہر لاہور کا ذکر نہ کیا جائے ایسا تو ممکن نہیں۔ ایک وقت تھا جب شہر لاہور میں بھرپور طریقے سے موسم بہار کو خوش آمدید کیا جاتا، بسنت کا تہوار نہایت رنگوں بھرا تہوار ہے جسے لاہوری پرامن طریقے سے مناتے تھے۔
پاکستان کی طرح پوری دنیا میں بھی بہار اپنی آمد پر لوگوں کو جشن منانے پر مجبور کر دیتی ہے۔کچھ تصاویر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جاپان میں چیری بلاسم کے پھول ہر سو اپنے جلوے بکھیرتے نظر آتے ہیں۔یہ نظارے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور دور دور سے لوگ انھیں دیکھنے آتے ہیں۔
کوریا میں بھی بہار کے خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو پوری دنیا میں مشہور ہیں۔
بر طانیہ کی بہار بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔طویل شدید سردی کے بعد جب سورج نکلتا ہے اور پھول کھلتے ہیں تو ہر کسی کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔
سپین میں آڑو کے درختوں پر اُگے پھول ہر کسی کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔